قُلۡ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۲۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے فیصلے کے دن ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا نہ ان کا ایمان لانا نفع دے گا اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہہ دو کہ فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ اُن کو مہلت دی جائے گی
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان ﻻنا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 29) {قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِيْمَانُهُمْ …:} یعنی تمھارے اس سوال سے تمھیں کچھ حاصل نہیں، تم اس مہلت کو غنیمت سمجھو جو اس وقت تمھیں حاصل ہے۔ کیونکہ فیصلے کا وہ دن آگیا تو آنکھوں دیکھی حقیقت پا کر نہ تمھارا ایمان لانا تمھیں کچھ فائدہ دے گا اور نہ مزید مہلت ملے گی۔ دیکھیے سورۂ مومن(۸۴، ۸۵)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

29-1یوم الفتح سے مراد آخرت کا فیصلے کا دن، جہاں ایمان مقبول ہوگا اور نہ مہلت دی جائے گی۔ فتح مکہ کے دن مراد نہیں ہے کیونکہ اس دن طلقاء کا اسلام قبول کرلیا تھا، جن کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی (ابن کثیر) طلقاء سے مراد وہ اہل مکہ ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن سزا و تعزیر کے بجائے معاف فرما دیا تھا اور یہ کہہ کر آزاد کردیا تھا کہ آج تم سے تمہاری پچھلی ظالمانہ کاروائیوں کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ چناچہ ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

نافرمان اپنی بربادی کو آپ بلاوا دیتا ہے ٭٭
کافر اعتراضاً کہا کرتے تھے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم جو ہمیں کہا کرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کر دیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لو گے وہ وقت کب آئے گا؟ ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بے وقعت دیکھ رہے ہیں۔ چھپ رہے ہو ڈررہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کا وقت بتاؤ۔
اللہ فرماتا ہے کہ ’ جب عذاب اللہ آ جائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے ‘۔
جیسے فرمان ہے آیت «فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ» ۱؎ [40-غافر:85-83]‏‏‏‏، یعنی ’ جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے ‘، پوری دو آیتوں تک، اس سے فتح مکہ مراد نہیں۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریباً دوہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے۔
اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہیئے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانا مقبول ہوگا۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ» ۱؎ [26-الشعراء:118]‏‏‏‏ ’ ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر ‘۔
اور جیسے اور مقام پر ہے آیت «قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ» ۱؎ [34-سبأ:26]‏‏‏‏ یعنی ’ اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا ‘۔
اور آیت میں ہے «وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ» ۱؎ [14-إبراھیم:15]‏‏‏‏ ’ یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے اور جگہ ہے ‘
آیت «وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا» ۱؎ [2-البقرة:89]‏‏‏‏ ’ اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے ‘ اور آیت میں فرمان باری ہے «اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ» ۱؎ [8-الإنفال:19]‏‏‏‏ ’ اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آگئی ‘۔
پھر فرماتا ہے ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین سے بے پرواہ ہوجائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے ‘۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «‏‏‏‏اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ» [6-الأنعام:106]‏‏‏‏ ’ اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ‘۔
پھر فرمایا ’ تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اس کی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں،چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بے سود ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کر دئیے جائیں؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی (‏‏‏‏نکبت) وادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے۔ رب کے عذابوں کا شکار ہونگے۔ کہدو کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ‘۔
اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ السجدہ کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»