وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ۚ۲۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس تو اس سے ملنے کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم اُن کے ملنے سے شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس (کتاب) کو (یا موسٰی کو) بنی اسرائیل کے لئے (ذریعہ) ہدایت بنایا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہئے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 23) ➊ {وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَآىِٕهٖ: ” لِقَآىِٕهٖ “} کی ضمیر {” الْكِتٰبَ “} کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور لفظ {” مُوْسَى “} کی طرف بھی۔ پہلی صورت میں وہی بات دہرائی ہے جو سورت کے شروع میں فرمائی تھی کہ اس لاریب کتاب کا نازل کرنا رب العالمین کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، اب آپ کو کتاب ملی ہے، تو آپ اس کتاب کے ملنے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں۔ ہماری طرف سے کتاب کا عطا کیا جانا کوئی نئی بات نہیں، ہم پہلے بھی رسولوں کو کتابیں عطا کرتے رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «{ قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَ لَا بِكُمْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰۤى اِلَيَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ }» [الأحقاف: ۹] ” کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا)، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔“ اس میں اگرچہ اول مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر مراد ہر سننے والا ہے کہ کوئی بھی سننے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ملنے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہے، آپ کو کتاب ملنا ایسے ہی ہے جیسے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق {” الْكِتٰبَ “} سے مراد خاص تورات نہیں، جنس کتاب ہے، یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تو آپ بھی کتاب ملتے ہی کوئی شک نہ کریں۔ اور {”لِقَاءٌ“} سے مراد کتاب کا ملنا ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ }» [النمل: ۶] ”اور بلاشبہ یقینا تجھے قرآن ایک کمال حکمت والے،سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریب ترین پیغمبر اگرچہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں، مگر ایک تو تمام بنی اسرائیل ان پر ایمان نہیں لائے اور ایک یہ کہ وہ بھی تورات ہی کے احکام پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے {” الْكِتٰبَ “} کی طرف ضمیر لوٹانے کی صورت میں یہ معنی کیا ہے کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب ملنے کے بارے میں شک نہ کریں۔
دوسری صورت میں یعنی جب {” لِقَآىِٕهٖ “} کی ضمیر موسیٰ علیہ السلام کی طرف جا رہی ہو تو معنی یہ ہو گا کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہیں، جو معراج کی رات بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر ہوئی، جیسا کہ صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث میں مذکور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِيْ مُوْسٰی رَجُلاً آدَمَ طُوَالاً جَعْدًا، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ، وَ رَأَيْتُ عِيْسٰی رَجُلاً مَرْبُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ إِلَی الْحُمْرَةِ وَ الْبَيَاضِ، سَبْطَ الرَّأْسِ، وَرَأَيْتُ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَ الدَّجَّالَ فِيْ آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللّٰهُ إِيَّاهُ، فَلاَ تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِنْ لِّقَائِهِ] [بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ في السماء…: ۳۲۳۹] ”میں نے اس رات جب مجھے رات کو لے جایا گیا، موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، بہت لمبے گٹھے ہوئے جسم یا گھونگریالے بالوں والے، گویا وہ شنوء ہ قبیلے کے آدمیوں سے ہیں اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، میانہ قد، سرخی اور سفیدی کی طرف مائل سیدھے بالوں والے اور میں نے جہنم کے دربان مالک اور دجال کو دیکھا، من جملہ ان کئی اور نشانیوں کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں۔ (سورۂ سجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس تو اس کی ملاقات کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ۔“
➋ {وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ: ” جَعَلْنٰهُ “} میں {”هٗ“} کی ضمیر کتاب کے لیے ہے، یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنا دیا۔ پہلے اسی مضمون کی آیت سورۂ بنی اسرائیل (۲) میں گزر چکی ہے۔
دوسری صورت میں یعنی جب {” لِقَآىِٕهٖ “} کی ضمیر موسیٰ علیہ السلام کی طرف جا رہی ہو تو معنی یہ ہو گا کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہیں، جو معراج کی رات بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر ہوئی، جیسا کہ صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث میں مذکور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِيْ مُوْسٰی رَجُلاً آدَمَ طُوَالاً جَعْدًا، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ، وَ رَأَيْتُ عِيْسٰی رَجُلاً مَرْبُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ إِلَی الْحُمْرَةِ وَ الْبَيَاضِ، سَبْطَ الرَّأْسِ، وَرَأَيْتُ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَ الدَّجَّالَ فِيْ آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللّٰهُ إِيَّاهُ، فَلاَ تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِنْ لِّقَائِهِ] [بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ في السماء…: ۳۲۳۹] ”میں نے اس رات جب مجھے رات کو لے جایا گیا، موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، بہت لمبے گٹھے ہوئے جسم یا گھونگریالے بالوں والے، گویا وہ شنوء ہ قبیلے کے آدمیوں سے ہیں اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، میانہ قد، سرخی اور سفیدی کی طرف مائل سیدھے بالوں والے اور میں نے جہنم کے دربان مالک اور دجال کو دیکھا، من جملہ ان کئی اور نشانیوں کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں۔ (سورۂ سجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس تو اس کی ملاقات کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ۔“
➋ {وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ: ” جَعَلْنٰهُ “} میں {”هٗ“} کی ضمیر کتاب کے لیے ہے، یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنا دیا۔ پہلے اسی مضمون کی آیت سورۂ بنی اسرائیل (۲) میں گزر چکی ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
23-1کہا جاتا ہے کہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ ؑ نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھاـ 23-2' اس ' سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٭٭
فرماتا ہے ’ ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہ ‘۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یعنی معراج والی رات میں۔“
حدیث میں ہے { میں نے معراج والی رات سیدنا موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگھریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ و سفید تھے سیدھے بال تھے۔ میں نے اسی رات مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں } پس ’ اس کی ملاقات میں شک و شبہ نہ کر ‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28299:]
’ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنا دیا ‘۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ‘۔
جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت «وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا» ۱؎ [17-الإسراء:2]، یعنی ’ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ‘۔
لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کر دئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتداء کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے۔“ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”دین کے لیے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لیے غذا ضروری ہے۔“
سفیان رحمہ اللہ سے علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ ”صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنا دیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے۔“ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ ”چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنا دیا۔“
چنانچہ فرمان ہے «وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ (وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ وَآتَيْنَاهُمْ بَيِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ) فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ» ۱؎ [45-الجاثية:17-16] ’ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضیلت دی ‘۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ ’ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ‘۔
حدیث میں ہے { میں نے معراج والی رات سیدنا موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگھریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ و سفید تھے سیدھے بال تھے۔ میں نے اسی رات مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں } پس ’ اس کی ملاقات میں شک و شبہ نہ کر ‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28299:]
’ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنا دیا ‘۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ‘۔
جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت «وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا» ۱؎ [17-الإسراء:2]، یعنی ’ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ‘۔
لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کر دئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتداء کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے۔“ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”دین کے لیے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لیے غذا ضروری ہے۔“
سفیان رحمہ اللہ سے علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ ”صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنا دیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے۔“ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ ”چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنا دیا۔“
چنانچہ فرمان ہے «وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ (وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ وَآتَيْنَاهُمْ بَيِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ) فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ» ۱؎ [45-الجاثية:17-16] ’ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضیلت دی ‘۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ ’ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ‘۔