اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ۷۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یہ لوگ ہیں جنھیں جزا میں بلند و بالا محل عطا کیے جائیں گے، اس لیے کہ انھوں نے صبر کیا اور اس میں ان کا استقبال زندگی کی دعا اور سلام کے ساتھ کیا جائے گا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان (صفات کے) لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے۔ اور وہاں فرشتے ان سے دعا وسلام کے ساتھ ملاقات کریں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہی وه لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و باﻻخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی
(آیت 75) ➊ { اُولٰٓىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ …:” غُرْفَةٌ “} ہر بلند عمارت اور اونچا محل، بالا خانہ۔ {” الْغُرْفَةَ “} سے مراد کوئی ایک بالا خانہ نہیں بلکہ مراد جنس ہے، یعنی عباد الرحمان کو صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے یعنی اونچے محل عطا کیے جائیں گے، جن کی بلندی ان کے مراتب کے اعتبار سے ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ ] [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ …: ۳۲۵۶ ] ”اہلِ جنت اپنے اوپر کی طرف بالا خانوں والوں کو دیکھیں گے جیسے تم مشرق یا مغرب کے افق پر دور چمک دار تارے کو دیکھتے ہو، ان کی ایک دوسرے کے درمیان درجوں کی برتری کی وجہ سے۔“ اور دیکھیے سورۂ زمر (۲۰) اور عنکبوت (۵۸)۔
➋ { بِمَا صَبَرُوْا:} یعنی عباد الرحمان کو یہ نعمت ان کے صبر کی وجہ سے حاصل ہو گی کہ انھوں نے نیکی پر صبر کیا، برائی سے اجتناب پر صبر کیا اور راہِ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ }» [ الزمر: ۱۰ ] ”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“
➌ { وَ يُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلٰمًا: ” تَحِيَّةً “ ”حَيّٰ يُحَيِّيْ“} کا مصدر ہے، زندگی کی دعا دینا۔ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے جنتیوں کے استقبال اور سلام کے لیے دیکھیے سورۂ رعد (۲۳، ۲۴)، انبیاء (۱۰۱ تا ۱۰۳)، زمر (۷۳) اور سورۂ یٰس (۵۵ تا ۵۸)۔
➋ { بِمَا صَبَرُوْا:} یعنی عباد الرحمان کو یہ نعمت ان کے صبر کی وجہ سے حاصل ہو گی کہ انھوں نے نیکی پر صبر کیا، برائی سے اجتناب پر صبر کیا اور راہِ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ }» [ الزمر: ۱۰ ] ”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“
➌ { وَ يُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلٰمًا: ” تَحِيَّةً “ ”حَيّٰ يُحَيِّيْ“} کا مصدر ہے، زندگی کی دعا دینا۔ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے جنتیوں کے استقبال اور سلام کے لیے دیکھیے سورۂ رعد (۲۳، ۲۴)، انبیاء (۱۰۱ تا ۱۰۳)، زمر (۷۳) اور سورۂ یٰس (۵۵ تا ۵۸)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
مومنوں کے اعمال اور اللہ کے انعامات ٭٭
مومنوں کی پاک صفتیں، ان کے بھلے اقوال، عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جو بلند تر جگہ ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ ان کے اوصاف پر جمے رہے۔ وہاں ان کی عزت ہو گی، اکرام ہو گا، ادب و تعظیم ہو گی، احترام اور توقیر ہو گی۔ ان کے لیے سلامتی ہے، ان پر سلامتی ہے، ہر دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کر کے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہو گیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے۔
یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہ نکلیں، نہ نکالے جائیں، نہ نعمتیں کم ہوں، نہ راحتیں فنا ہوں۔ یہ سعید بخت ہیں۔ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے رہنے سہنے، راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی و پاک، صاف، طیب و طاہر ہے۔ دیکھنے میں خوش منظر، رہنے میں آرام دہ۔
اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح و تہلیل کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے۔ ایمان کے بغیر انسان ناکارہ محض ہے۔ اگر اللہ کو کافروں کی چاہت ہوتی تو وہ انہیں بھی اپنی عبادت کی طرف جھکا دیتا لیکن اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں۔
کافرو! تم نے جھٹلایا۔ اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہو گیا۔ نہیں اس کا وبال تمہارے ساتھ ہی ساتھ ہے، دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو گے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کی کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے: قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے۔
الحمدللہ کہ سورۃ الفرقان کی تفسیر ختم ہوئی۔
یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہ نکلیں، نہ نکالے جائیں، نہ نعمتیں کم ہوں، نہ راحتیں فنا ہوں۔ یہ سعید بخت ہیں۔ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے رہنے سہنے، راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی و پاک، صاف، طیب و طاہر ہے۔ دیکھنے میں خوش منظر، رہنے میں آرام دہ۔
اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح و تہلیل کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے۔ ایمان کے بغیر انسان ناکارہ محض ہے۔ اگر اللہ کو کافروں کی چاہت ہوتی تو وہ انہیں بھی اپنی عبادت کی طرف جھکا دیتا لیکن اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں۔
کافرو! تم نے جھٹلایا۔ اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہو گیا۔ نہیں اس کا وبال تمہارے ساتھ ہی ساتھ ہے، دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو گے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کی کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے: قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے۔
الحمدللہ کہ سورۃ الفرقان کی تفسیر ختم ہوئی۔