لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اس حال میں کہ ان کے دل غافل ہوتے ہیں۔ اور ان لوگوں نے خفیہ سرگوشی کی جنھوں نے ظلم کیا تھا، یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا؟ تو کیا تم جادو کے پاس آتے ہو، حالانکہ تم دیکھ رہے ہو؟
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے۔ تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ﻇالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وه تم ہی جیسا انسان ہے، پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 3) ➊ {لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى …: ” لَاهِيَةً “ ” لَهِيَ يَلْهٰي “} (ع) یا {” لَهَا يَلْهُوْ“} (ن) سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے۔ {” لَهْوٌ“} وہ چیز ہے جو انسان کو اس کے ضروری اور اہم کاموں سے کسی اور کام میں مشغول کر دے۔ (راغب) جیسا کہ مادہ پرست لوگ آخرت کی فکر چھوڑ کر صرف دنیا کی طلب میں مشغول ہیں۔ آج کل کے علوم و فنون سائنس، آرٹ وغیرہ میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آخرت کی یاد دلانے والی ہو، بلکہ یہ سب روشن خیالیاں دن بدن موت اور آخرت کی فکر سے دور لے جا رہی ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ روم (۶، ۷)۔
➋ { وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى:} یہاں نحو کا ایک مشہور سوال ہے کہ جب فاعل ظاہر ہو تو خواہ وہ واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، فعل واحد کے صیغے کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں {” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “} فاعل ظاہر ہونے کے باوجود فعل جمع کے صیغے کے ساتھ کیوں آیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ {” اَسَرُّوا “} کا فاعل ضمیر جمع ہے اور {” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “} اس سے بدل ہے، یعنی کفار نے باہمی خفیہ مشورے سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رکھنے کے لیے خفیہ مشاورت کرکے طے کیا کہ لوگوں سے یہ کہو اور خفیہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ان کی طے کردہ بات ہے تو وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔
➌ {هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ …:} یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمھاری طرح کا ایک انسان ہے، اب جو یہ معجزات دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا، ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۴)، تغابن (۶)، قمر (۲۴)، مومنون (۳۳، ۳۴)، فرقان (۷) اور ابراہیم (۱۰) پہلے کفار و مشرکین کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا، آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، بات ایک ہی ہے، «{ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ }» [المؤمنون: ۸۱] ”بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔“ اللہ تعالیٰ نے آگے اس کا رد فرمایا۔ دوسرا طعن یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ کفار کا یہ طعن بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ مدثر (۲۴) اور ذاریات (۵۲)۔
➋ { وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى:} یہاں نحو کا ایک مشہور سوال ہے کہ جب فاعل ظاہر ہو تو خواہ وہ واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، فعل واحد کے صیغے کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں {” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “} فاعل ظاہر ہونے کے باوجود فعل جمع کے صیغے کے ساتھ کیوں آیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ {” اَسَرُّوا “} کا فاعل ضمیر جمع ہے اور {” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “} اس سے بدل ہے، یعنی کفار نے باہمی خفیہ مشورے سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رکھنے کے لیے خفیہ مشاورت کرکے طے کیا کہ لوگوں سے یہ کہو اور خفیہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ان کی طے کردہ بات ہے تو وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔
➌ {هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ …:} یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمھاری طرح کا ایک انسان ہے، اب جو یہ معجزات دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا، ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۴)، تغابن (۶)، قمر (۲۴)، مومنون (۳۳، ۳۴)، فرقان (۷) اور ابراہیم (۱۰) پہلے کفار و مشرکین کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا، آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، بات ایک ہی ہے، «{ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ }» [المؤمنون: ۸۱] ”بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔“ اللہ تعالیٰ نے آگے اس کا رد فرمایا۔ دوسرا طعن یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ کفار کا یہ طعن بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ مدثر (۲۴) اور ذاریات (۵۲)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔