ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأنبياء (21) — آیت 2
مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں اور وہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وه کھیل کود میں ہی سنتے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2) ➊ { مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ …: اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ سَمِعَ يَسْمَعُ} کا معنی سننا ہے، باب افتعال میں تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، جو موقع کی مناسبت سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے۔ عام طور پر {اِسْتَمَعَ} کا معنی کان لگا کر سننا آتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ کفار کے لیے نصیحت کو کان لگا کر سننا مشکل ہے، خصوصاً جب وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں، اس لیے معنی کیا گیا ہے مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں۔
➋ پچھلی آیت میں لوگوں کے غفلت میں گرفتار ہونے اور منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں بتایا کہ انھیں اس غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ان کے رب کی طرف سے قرآن و سنت کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے، مگر قبول کرنا تو دور کی بات، وہ اسے توجہ اور اطمینان سے سنتے بھی نہیں، بلکہ کھیلتے اور مذاق اڑاتے ہوئے بڑی مشکل اور گرانی سے سنتے ہیں۔
➌ { مِنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ } (ان کے رب کی طرف سے نصیحت) سے معلوم ہو رہا ہے کہ رب تعالیٰ صرف کھانے پینے اور دنیوی ضرورتیں پوری کرنے والا رب اور پروردگار ہی نہیں بلکہ انسان کی روحانی ضرورتیں اور آخرت کی نجات کی ضامن چیزوں کو مہیا کرنے والا رب بھی ہے۔
➍ { مُحْدَثٍ } کا معنی نیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے لوگوں کی طرف قرآن اور حدیث کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جو چاہے کلام کر سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ اسے مخلوق قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ناممکن ہے۔ اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۴۳)، توبہ (۶) اور کہف (۱۰۹)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

113۔ 1 یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آجائیں۔ 113۔ 2 یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

قیامت سے غافل انسان ٭٭
اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ ’ قیامت قریب آ گئی ہے۔ پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہو گئے ہیں ‘۔
جیسے اور آیت میں ہے «أَتَىٰ أَمْرُ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ» ۱؎ [16-النحل:1]‏‏‏‏ ’ امر ربی آ گیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ ‘
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ [54-القمر:2-1]‏‏‏‏ ’ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا ‘ الخ۔
ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے «(‏‏‏‏النَّاسُ فِي غَفَلَاتِهِمْ)‏‏‏‏‏‏‏‏» «(‏‏‏‏وَرَحَا الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ)‏‏‏‏‏‏‏‏» موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔‏‏‏‏
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے، انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ عامر رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ» کی تلاوت فرمائی۔ ۱؎ [میزان الاعتدال:256/2:ضعیف]‏‏‏‏
اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ ’ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ‘۔
بخاری شریف میں ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کر لیا، تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ ۱؎ [صحیح بخاری:7523]‏‏‏‏
یہ لوگ کتاب اللہ سے بے پرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باوجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل