ترجمہ و تفسیر — سورۃ النحل (16) — آیت 9
وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿٪۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا) ہے اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو ضرور تم سب کو ہدایت دے دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لگا دیتا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت9) ➊ {وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ …:} چند انسانی ضروریات کا ذکر فرما کر سب سے ضروری چیز یعنی صحیح راستہ بتانے کے اہتمام کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے ہم ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں: «{ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ [الفاتحۃ: ۵] ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ { قَصْدُ } کا معنی سیدھا ہونا۔ { السَّبِيْلِ } کا معنی راستہ، تو { قَصْدُ السَّبِيْلِ } سیدھا راستہ جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اسے سبیل قصد بھی کہتے ہیں اور سبیل قاصد بھی۔ گویا { قَصْدُ } مصدر بمعنی اسم فاعل ہے جو موصوف کی طرف مضاف ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر خط مستقیم ہی ہوتا ہے، یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے اور یہ ذمہ خود اس نے اپنے فضل سے اٹھایا ہے، کسی کا اس پر جبر نہیں۔ یا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے، یعنی انسان فطرت پر قائم رہے تو خود بخود توحید الٰہی کا قائل ہو جاتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے، اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کر دیا ہے۔
➋ جب زندگی عطا کرنے والے نے خود راستہ متعین کر دیا تو مفکروں، فلسفیوں اور قانون سازوں کو دستور سازی یا قانون سازی کی تکلیف سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا علم ہر چیز کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے ان کے بنائے ہوئے دستور و قانون بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انسان کی بربادی ہی کا باعث بنتے ہیں۔ حکام کا کام دستور سازی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دستور و قانون کو عملاً نافذ کرنا ہے۔ افسوس کہ کفار کی کئی سو سالہ محنت کے نتیجے میں مسلمانوں نے آخر اللہ تعالیٰ کا منصب خود سنبھال لیا اور خلافت ختم کرکے جمہوریت کے نام پر خود دستور ساز اور قانون ساز بن بیٹھے۔ اب نام ان کا مسلم ہے، مگر نظام ان کا اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور کفار کے حکم یا اپنی خواہش پر عمل ہے۔
➌ { وَ مِنْهَا جَآىِٕرٌ: جَارَ عَنِ الطَّرِيْقِ} راستے سے ہٹ گیا۔ { جَآىِٕرٌ } اسم فاعل ہے،وہ تمام راستے جواللہ کی طرف سے نہیں ہیں،یعنی نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ حدیث سے، وہ سب صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اورانھیں اختیارکرنے والے گمراہ ہیں۔
➍ {وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ:} مگر اس سے انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد جو آزمائش ہے، وہ فوت ہو جاتا، اس لیے کہ جس حد تک راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کر دیا، مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا، تاکہ اس کے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جا سکے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

9۔ 1 اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ' اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ ' یعنی اس کا بیان کرنا۔ چناچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کردیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔ 9۔ 2 لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

9۔ اور سیدھی راہ بتانا اللہ کے ذمہ [9] ہے جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت [10] دے دیتا
[9] وحی کے بغیر ہدایت انسانی نا ممکن ہے:۔
جس طرح تمہاری جسمانی زندگی کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ضرورت کی سب چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح تمہاری روحانی زندگی کی بقا کے اسباب مہیا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ محض عقل سے یہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ عقل کی سوچ و فکر کا میدان انتہائی محدود ہے لہٰذا اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ نے عہد الست لے کر پیغمبر اور کتابیں بھیج کر پورا کر دیا یہی وہ راہ ہے جو سیدھی ہے اور صرف ایک ہے اور عقل جن راہوں پر چلتی ہے وہ ٹیڑھی بھی ہیں اور لاتعداد بھی کیونکہ نہ ہر انسان میں عقل ایک جیسی ہوتی ہے اور نہ ہر انسان کی عقل کا صحت کے لیے قائم کردہ معیار ایک جیسا ہوتا ہے۔ عقلوں کے اسی فرق کی بنا پر بے شمار راہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ عقل کی مثال در اصل آنکھ کی سی ہے جسے دیکھنے کے لیے کسی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی روشنی کے بغیر آنکھ صحیح کام نہیں کرتی۔ اور یہ خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ روشنی میں انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے مگر اندھیرے میں چلنے والا ٹامک ٹوئیاں ہی مارتا ہے کبھی کسی راہ پر جاپڑتا ہے اور کبھی کسی پر پھر اس کے کسی گڑھے یا کھڈ میں گر پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، ٹھڈے لگنے کا بھی اور کسی سخت اور اونچی چیز سے ٹکرانے کا اور چوٹ لگ جانے کا بھی۔ لہٰذا اس خارجی روشنی کی انسان کو شدید ضرورت تھی تاکہ وہ بلا تکلف سیدھی راہ پر گامزن رہ سکے اور انسان کی یہ ضرورت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر پوری کر دی ہے اسی مضمون کو اللہ نے کئی مقامات پر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ کیا بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ اور انسانیت ہمیشہ تجربوں اور ناکامیوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سیدھی راہ بتا کر اس پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔
[10] جبری ہدایت دینا اللہ کا دستور نہیں:۔
اس لیے کہ جبری ہدایت سے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری ہر مخلوق سے زیادہ عقل و تمیز بخشی، قوت ارادہ اور تصرف کا اختیار بھی دیا۔ ہدایت اور گمراہی کے راستے بھی واضح طور پر سمجھا دیئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اب کون شخص کون سی راہ اختیار کرتا ہے اور یہی مشیت الٰہی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ سب کو خود ہی ہدایت کی راہ پر لگا دیتا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

تقویٰ بہترین زاد راہ ہے ٭٭
دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے۔ محسوسات سے معنویات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے توشہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقویٰ کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہونے کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملانے والا ہے رب کی سیدھی راہ وہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے۔
فرمایا ’ میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے ‘۔ طریق جو اللہ سے ملانے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دوسرے راستوں کی گمراہی بھی بیان فرما دی ہے۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں، حق سے الگ تھلگ ہیں، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ۔
پھر فرماتا ہے کہ «‏‏‏‏وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» [11-هود:118-119]‏‏‏‏ ’ ہدایت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام باشندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ اسی کے لیے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل