ترجمہ و تفسیر — سورۃ النحل (16) — آیت 8
وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے، اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت8) ➊ {وَ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا …: زِيْنَةً } مفعول لہ ہے۔ { وَ يَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ } یعنی ان جانوروں کے علاوہ جن کا ابھی ذکر ہوا، اللہ تعالیٰ تمھارے لیے وہ چیزیں پیدا کرتا رہے گا جو تم نہیں جانتے۔ اس میں وہ بے شمار حیوانات بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نئے سے نئے پیدا کرتا رہتا ہے، کبھی مختلف نسلوں کے ملاپ سے، کبھی از سر نو صحراؤں، جنگلوں، سمندروں میں اور انسانوں کی تجربہ گاہوں میں اور قیامت تک ایجاد ہونے والی سواریاں اور مشینیں بھی جو آیت کے نزول کے وقت موجود نہ تھیں، جن میں گاڑیاں، ہوائی جہاز اور انجنوں سے چلنے والے بحری جہاز وغیرہ سب شامل ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مزید کیا کیا ایجادات ہوں گی؟ قرآن نے ان چیزوں کا ذکر کیا مگر انھیں مبہم رکھا، کیونکہ اگر نام لیتے تو بہت سے لوگ شاید انکار ہی کر دیتے۔ کہا جاتا ہے: {اَلنَّاسُ اَعْدَاءٌ لِمَا جَهِلُوْا} کہ لوگ جس بات کا علم نہ رکھتے ہوں اس کے مخالف ہوا کرتے ہیں اور ذکر نہ کرتے تو جانوروں سے بھی تیز رفتار، آرام دہ اور مزین سواریوں کا توحید و احسانِ الٰہی کی دلیل کے طور پر ذکر رہ جاتا جو { سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا } کی جانوروں سے بھی بڑھ کر مصداق ہیں اور صاحب ظلال القرآن نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ اس لیے بھی کر دیا کہ لوگ نئی ایجادات پر سواری میں حرج نہ سمجھیں کہ ہمارے بزرگ تو اونٹوں گھوڑوں ہی پر سواری کرتے رہے ہیں اور قرآن میں انھی کا ذکر ہے۔
➋ خچر اور گدھے کے گوشت کی حرمت پر تو سب کا اتفاق ہے، البتہ گھوڑے کے گوشت میں اختلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں اس کا حلال ہونا ثابت ہے۔ بعض لوگ جو اسے حرام سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان تینوں جانوروں کو سواری کے لیے دوسرے جانوروں سے الگ ذکر فرمایا ہے، اگر ان کا کھانا حلال ہوتا ہے تو سواری کے ساتھ انھیں کھانے کی نعمت کا ذکر ضرور ہوتا۔ یہ دلیل اگر درست مانی جائے تو پہلے جانوروں کے فوائد میں سواری کا ذکر نہیں تو ان پر سواری جائز نہیں ہونی چاہیے۔ (طبری) بغوی نے فرمایا کہ یہ آیات حلال و حرام کے بیان سے تعلق ہی نہیں رکھتیں۔ علامۂ شام جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب کو معلوم ہے کہ یہ سورت مکی ہے، اگر اس سے گھوڑے کی حرمت ثابت ہوتی تو گدھے کی بھی ضرور ثابت ہوتی، جب کہ گدھے کا گوشت ان آیات کے بعد بھی حلال رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر اسے حرام فرمایا اور اسی موقع پر گھوڑے کے حلال ہونے کو برقرار رکھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کی اجازت دی۔ [بخاري، المغازی، باب غزوۃ خیبر: ۴۲۱۹] اسماء رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔ [بخاری، الذبائح والصید، باب النحر و الذبح: ۵۵۱۰۔ مسلم، الصید و الذبائح، باب إباحۃ أکل لحم الخیل: ۱۹۴۲] اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ [ترمذي، الأطعمۃ، باب ما جاء في أکل لحوم الخیل: ۱۷۹۳۔ نسائی: ۴۳۳۳]
علامہ قاسمی فرماتے ہیں کہ ابوداؤد اور نسائی وغیرہ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں میں سے ہر کچلی والے جانور اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا، اس کی سند میں صالح بن یحییٰ ہے جس میں مقال ہے، امام بخاری نے فرمایا: {فِيْهِ نَظْرٌ} اور ایسے راوی کی حدیث لینا درست نہیں ہوتا، پھر اگر صحیح بھی فرض کریں تو یہ اوپر ذکر کردہ صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کرنے کے قابل نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حکم خیبر سے پہلے کا ہو اور منسوخ ہو۔
تنبیہ: صاحبِ ہدایہ نے امام ابوحنیفہ سے گھوڑے کی کراہت نقل فرمائی ہے، حرمت نہیں اور لکھا ہے: بعض نے کہا ان کے نزدیک کراہت تحریمی ہے اور بعض نے کہا تنزیہی ہے۔ (صاحب ہدایہ کے خیال میں پہلا قول زیادہ صحیح ہے) البتہ اس کے دودھ سے متعلق کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس سے آلۂ جہاد (گھوڑوں) میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس سارے کلام سے گھوڑے کا اور گدھے اور خچر کا فرق واضح ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ امام ابوحنیفہ کا گھوڑوں کے گوشت کو مکروہ کہنے کی اصل و جہ یہ ہے کہ وہ آلۂ جہاد ہیں، ذبح کرنے سے کمی واقع ہو جائے گی۔
➌ { وَ زِيْنَةً:} پچھلی آیات میں جمال اور اس آیت میں زینت کے ذکر سے معلوم ہوا کہ انسانی ضروریات صرف کھانا پینا، پہننا اور سواری ہی نہیں بلکہ حسن و جمال اور زینت کا احساس بھی انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے اور اگر حرام طریقے سے نہ ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

8۔ 1 یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آچکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف (سواری) کے لئے ہے۔ 8۔ 2 زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بےآب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

8۔ اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے بھی پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہارے لئے باعث زینت بھی [7] ہیں اور وہ اور بھی کئی چیزیں پیدا کرے گا۔ جنہیں [8] تم نہیں جانتے [7] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو بھی انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا ہے جن سے وہ طرح طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے بعض جانور ایسے ہیں جن کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دودھ، مکھن اور گھی انھیں سے حاصل کرتا تھا۔ گرم پوشاک انھیں مویشیوں کی اون سے مہیا ہوتی ہے۔ وہ اس کے بار برداری کے کام بھی آتے ہیں اور سواری کے بھی۔ ان کے چمڑے سے وہ بہت سی قیمتی چیزیں تیار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی ہڈیوں تک کو اپنے کام میں لاتا ہے پھر مزید یہ کہ اس کے لیے زینت بھی ہیں اور شان و شوکت کا سامان بھی۔ آج کے مشینی دور میں گو بہ لحاظ سواری اور بار برداری مویشیوں کی قدر و قیمت بہت کم ہو گئی ہے۔ تاہم ابھی تک ان کی ضرورت بدستور باقی ہے لیکن اس مشینی دور کو شروع ہوئے ابھی تین سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ذرا غور فرمائیے اس مشینی دور سے پہلے اگر یہ مویشی نہ ہوتے تو انسان بالخصوص بار برداری کے مسئلے میں کسی قدر مشقت میں پڑ سکتا تھا۔ پھر اس مشینی دور نے بھی ان جانوروں کے فوائد کے صرف ایک حصہ یعنی سواری اور بار برداری کو کم کیا ہے۔ اور آج بھی دشوار گزار راستوں پر انہی جانوروں سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ ان جانوروں کے باقی سب فوائد بدستور باقی ہیں اور یہ سب احسانات اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس لئے کیے کہ اس کی جسمانی زندگی کے بقا کے لیے اس کے ممد و معاون ثابت ہوں۔ مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں سواری اور زینت کا ذکر فرمایا تو گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا نام لیا اور جہاں بار برداری اور جمال کا ذکر فرمایا تو وہاں انعام کا لفظ استعمال فرمایا اور انعام نعم کی جمع ہے گو اس کا اطلاق درندوں کے علاوہ باقی سب جانوروں پر ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ تر استعمال اونٹ کے لیے ہی ہوتا ہے کیونکہ عربوں کے لیے اونٹ سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً اونٹ باقی سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ عام اندازے کے مطابق گدھا 5 من یا 2 بوریاں غلہ اٹھا سکتا ہے۔ گھوڑے اور خچر 3 بوریاں جبکہ اونٹ 4 بوریاں بآسانی اٹھا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ باقی سب جانوروں پر انھیں کھڑا کر کے بوجھ لادا جاتا ہے صرف اونٹ ایک ایسا جانور ہے جسے بٹھا کر اس پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی لمبوتری گردن میں اتنی قوت رکھی ہے کہ وہ اس کے سہارے بھرے ہوئے بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے اونٹ میں بار برداری کے لحاظ سے تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ عرب کے لق و دق صحراؤں کے ریگستان میں بآسانی سفر کر سکتا ہے اور چوتھی یہ کہ پانی کے بغیر یہ جانور کئی دنوں تک اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اونٹ کی انہی خوبیوں کی بنا پر اسے ”صحرا کا جہاز“ کا نام دیا گیا ہے۔ آج کے مشینی دور میں بھی جہاں پٹرول کی گاڑیاں کام نہیں دیتیں یہی صحرائی جہاز کام دیتا ہے۔
[8] مویشیوں کے فوائد:۔
اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایسی چیزیں تمہارے لیے پیدا کر رکھی ہیں جو تمہاری خدمت پر مامور ہیں لیکن تم انھیں جان نہیں سکتے یا ابھی تک جان نہیں سکے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سواری اور بار برداری اور دوسرے فوائد کے لیے مستقبل میں کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا فی الحال تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً سواری کے لیے اللہ تعالیٰ نے بسیں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز پیدا کر دیئے اور معلوم نہیں کہ آئندہ کیا کچھ پیدا کرے گا۔ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں نت نئی نئی ایجادات کا ہے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

سواری کے جانوروں کی حرمت ٭٭
اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ ’ زینت کے لیے اور سواری کے لیے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پیدائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے ‘۔
انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے۔ جیسے امام ابوحنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہاء کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لیے یہ بھی حرام ہوا۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’ انہیں تو کھاتے ہو ‘ پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کرکے فرمایا کہ ’ ان پر تم سواری کرتے ہو ‘، پس یہ ہوئے سواری کے جانور۔‏‏‏‏
مسند کی حدیث میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے } ۱؎ [سنن ابوداود:3790،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏ لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے۔
مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ { ہم سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ { لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لیے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے }۔ پھر فرمایا کہ { اے لوگو! تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی، سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پالتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پرندہ حرام ہے } }۔ ۱؎ [مسند احمد:89/4:ضعیف]‏‏‏‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بیشک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقابلے کی قوت نہیں جس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4219]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ { ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کردیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3789،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { ہم نے مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:5510]‏‏‏‏ پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذہب جمہور علماء کا ہے۔ مالک، شافعی، احمد، رحمہ اللہ علیہم ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کے لیے اسے مطیع کردیا۔‏‏‏‏ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنوبی ہوا سے گھوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جواز تو قرآن کے لفظوں سے ثابت ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیے میں دیا گیا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کرتے تھے } ۱؎ [صحیح بخاری:1481]‏‏‏‏ ہاں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملایا جائے۔ یہ ممانعت اس لیے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جائے۔
{ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { یہ کام وہ کرتے ہیں جو علم سے کورے ہیں } }۔ ۱؎ [مسند احمد:311/4:صحیح لغیره]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل