اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت1) ➊ { اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ:” اَمْرُ اللّٰهِ “} سے مراد قیامت ہے اور مشرکین پر مختلف قسم کے عذاب کا نزول بھی ہے اور {”اَتٰۤى “} (آ گیا) سے مراد بالکل قریب آنا ہے، کیونکہ آ ہی چکا ہو تو پھر کفار کی طرف سے اسے جلدی لانے کا مطالبہ بے معنی ہے۔
➋ {فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ:} مشرکین قیامت یا عذاب کا ذکر آنے پر مذاق اڑانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دیکھیے سورۂ انفال (۳۲) اور سورۂ عنکبوت (۵۳ تا ۵۵) لفظ ماضی{ ” اَتٰۤى “} (آگیا) کا مطلب ہے کہ اس کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو آ ہی چکا، اس لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ بالکل قریب ہے اور طے شدہ وقت پر آ جائے گا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ مسلمان بھی بعض اوقات پریشان ہو کر مسلمانوں کے لیے اللہ کی نصرت اور کفر پر عذاب میں تاخیر پر اس کے جلدی آنے کی دعا کرتے تھے، انھیں بھی تسلی دی کہ سمجھو اللہ کا حکم آ ہی گیا، جیسا کہ فرمایا: «{ حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ }» [البقرۃ: ۲۱۴] ”یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو، بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔“
➌ {سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ:} عذاب کے جلدی نہ آنے کی و جہ سے وہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ وہ عذاب لا ہی نہیں سکتا، ورنہ فوراً کیوں نہیں لے آتا۔ فرمایا ان کا اللہ تعالیٰ کو اپنا حکم نافذ کرنے سے اور عذاب لانے سے عاجز قرار دینا، یا وعدہ خلافی کرنے والا سمجھنا کفر و شرک کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح پاک اور نہایت بلند ہے۔ وہ نہ عاجز ہے نہ وعدہ خلاف، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، ان کی فرمائشوں کا پابند نہیں۔ دیکھیے سورۂ حج (۴۷)۔
➍ آیت کے شروع میں مخاطب کرکے فرمایا: «{ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ}» ”تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو“ اور آیت کے آخر میں مشرکین کا ذکر غائب کے لفظ سے کیا: «{ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ}» ”وہ اس سے پاک اور بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں“ اسے التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔
➋ {فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ:} مشرکین قیامت یا عذاب کا ذکر آنے پر مذاق اڑانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دیکھیے سورۂ انفال (۳۲) اور سورۂ عنکبوت (۵۳ تا ۵۵) لفظ ماضی{ ” اَتٰۤى “} (آگیا) کا مطلب ہے کہ اس کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو آ ہی چکا، اس لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ بالکل قریب ہے اور طے شدہ وقت پر آ جائے گا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ مسلمان بھی بعض اوقات پریشان ہو کر مسلمانوں کے لیے اللہ کی نصرت اور کفر پر عذاب میں تاخیر پر اس کے جلدی آنے کی دعا کرتے تھے، انھیں بھی تسلی دی کہ سمجھو اللہ کا حکم آ ہی گیا، جیسا کہ فرمایا: «{ حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ }» [البقرۃ: ۲۱۴] ”یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو، بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔“
➌ {سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ:} عذاب کے جلدی نہ آنے کی و جہ سے وہ کہتے تھے اللہ تعالیٰ وہ عذاب لا ہی نہیں سکتا، ورنہ فوراً کیوں نہیں لے آتا۔ فرمایا ان کا اللہ تعالیٰ کو اپنا حکم نافذ کرنے سے اور عذاب لانے سے عاجز قرار دینا، یا وعدہ خلافی کرنے والا سمجھنا کفر و شرک کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح پاک اور نہایت بلند ہے۔ وہ نہ عاجز ہے نہ وعدہ خلاف، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، ان کی فرمائشوں کا پابند نہیں۔ دیکھیے سورۂ حج (۴۷)۔
➍ آیت کے شروع میں مخاطب کرکے فرمایا: «{ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ}» ”تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو“ اور آیت کے آخر میں مشرکین کا ذکر غائب کے لفظ سے کیا: «{ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ}» ”وہ اس سے پاک اور بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں“ اسے التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انھیں مخاطب کیا جائے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ (1) تمام پاکی اس کے لئے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ (اے کافرو) اللہ کا حکم آ پہنچا، لہذا اس کے لئے جلدی [1] نہ مچاؤ وہ پاک ہے اور اس سے بلند تر [2] ہے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں
[1] قریش پر اللہ کے عذاب کی صورت اور اس کا آغاز ہجرت نبوی سے:۔
مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیسے تم کہتے ہو، ہم پر اب تک عذاب آ کیوں نہیں گیا وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب کا وعدہ دیتے دس بارہ سال گزر چکے ہیں اور عذاب تو آیا نہیں لہٰذا یہ الفاظ گویا ان کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ اور اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے۔ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر اور دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنا یقینی ہے اس کے لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جلد ہی تمہیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے یوں ہی سمجھو کہ وہ سر پر آپہنچا۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا اور کب آیا؟ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہو اس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے انھیں بچا لیا جاتا ہے اور باقی مجرموں پر قہر الٰہی نازل ہوتا ہے اور عذاب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہجرت کرنے والوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مجرم قوم کی پٹائی کراتا ہے۔ تا آنکہ کفر و شرک کا سر توڑ دیتا ہے۔ عذاب کی ان دونوں صورتوں کا ذکر سورۃ توبہ کی آیت نمبر 52 میں موجود ہے لہٰذا ہمارے خیال میں اس عذاب کا نقطۂ آغاز ہجرت نبوی ہی تھا۔ جس کا حکم اس سورۃ کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد دے دیا گیا تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور یہی ہجرت غزوہ بدر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے صرف آٹھ دس سال بعد بتدریج کافروں اور مشرکوں کا اس طرح قلع قمع ہوا اور کفر و شرک کا یوں استیصال ہوا کہ سارے عرب سے اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔
[2] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہو گئی۔ اور سب کو معلوم ہو گیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہٰذا وہ باطل ہیں۔
[2] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہو گئی۔ اور سب کو معلوم ہو گیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہٰذا وہ باطل ہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا ٭٭
اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گویا کہ وہ قائم ہو چکی۔ اس لیے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ» [21-الأنبياء:1] ’ لوگوں کا حساب قریب آ چکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ‘۔
اور آیت میں ہے «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ [54-القمر:1] ’ قیامت آ چکی، چاند پھٹ گیا ‘۔ پھر فرمایا ’ اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ‘۔ «ہ» کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ» ۱؎ [29-العنکبوت:54-53] ’ یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابوں کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ‘۔
ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ ”اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ”ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔“
جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت «يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ» ۱؎ [42-الشورى:18] ’ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار ان سے لرزاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ‘۔
اور آیت میں ہے «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ [54-القمر:1] ’ قیامت آ چکی، چاند پھٹ گیا ‘۔ پھر فرمایا ’ اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ‘۔ «ہ» کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ» ۱؎ [29-العنکبوت:54-53] ’ یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابوں کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ‘۔
ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ ”اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ”ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔“
جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت «يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ» ۱؎ [42-الشورى:18] ’ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار ان سے لرزاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ‘۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منادی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دوسرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الٰہی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی، ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا } }۔ ۱؎ [طبرانی کبیر:325/17:صحیح]
پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔