وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا، بلاشبہ اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دﻻ۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت5) ➊ {وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ …:} اللہ تعالیٰ نے شروع سورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کردہ کتاب کا ذکر فرمایا اور اس کا مقصد بتایا کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں۔ اب پہلے انبیاء کی اپنی اقوام کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے کی کوششوں اور ان کی اقوام کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کا، پھر دوسری اقوام اور ان کے رسولوں کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کچھ آیات کونیہ عطا فرمائیں، یعنی کائنات کے معمول کے خلاف معجزے، جن کے مقابلے سے دشمن عاجز تھا۔ جن میں سے چند کا تعلق فرعون اور اس کی قوم سے تھا، مثلاً عصائے موسیٰ، ید بیضاء (طٰہٰ: ۱۷ تا ۲۲)، قحط سالی، پھلوں کی کمی، طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون۔ (اعراف: ۱۳۳) یہ سب معجزے نبوت کی دلیل کے طور پر دیے گئے، کیونکہ مخاطب فرعون بے حد ضدی، سرکش، خدائی کا دعوے دار اور نہایت بے رحم تھا۔ جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی دلیل کے طور پر صرف ایک معجزہ ”قرآن“ عطا ہوا، باقی تمام معجزات برکت اور اہل ایمان کا ایمان بڑھانے کے لیے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے کئی معجزوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، مثلاً سمندر کا پھٹنا، فرعون سے نجات، بادلوں کا سایہ، من و سلویٰ کا اترنا، بارہ چشمے پھوٹنا، پہاڑ اکھیڑ کر عہد لیا جانا، گائے کا گوشت لگنے سے مردے کا زندہ ہونا وغیرہ اور کچھ وحی الٰہی کی آیات تھیں جنھیں ”تنزیلی آیات“ کہتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام پر سب سے پہلی وحی تورات سے بہت پہلے مدین سے واپسی پر اتری، پھر اسی طرح کسی کتابی صورت کے بغیر سالہا سال اترتی رہی۔ فرعون اسی وحی کے احکام کی نافرمانی کی وجہ سے غرق ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلا کر تورات عطا فرمائی۔ غرض موسیٰ علیہ السلام کو تو تورات کے علاوہ بھی بہت سی آیات عطا فرمائیں، کیونکہ دشمن نہایت سخت تھا اور اپنی قوم خوئے غلامی کی وجہ سے بے حد متلون مزاج، کافرانہ عقائد و رسوم سے متاثر اور بار بار مطالبے کرنے والی تھی۔ اوپر تقریباً سترہ آیات (نشانیوں) کا ذکر ہوا ہے، مقصد سب کا یہی تھا کہ وہ فرعون کو اور اپنی قوم کو کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالیں۔
➋ {وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ …: ”أَيَّامٌ“} سے مراد وہ دن ہیں جن میں کوئی نادر واقعہ مصیبت یا نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، جیسے یوم بدر وغیرہ۔ {”أَيَّامٌ“} کی اللہ کی طرف اضافت سے ان کی اہمیت بے حد بڑھ گئی۔ اگلی آیت میں چند {”أَيَّامٌ“} کا ذکر ہے، مگر ان واقعات سے عبرت صرف انھی کو ہوتی ہے جو بہت صابر اور بہت شاکر ہوں، کیونکہ ہر نیکی کی بنیاد صبر ہے اور شکر بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو صابر ہو، شکوہ شکایت اور بے صبری کرنے والوں کو شکر کی توفیق کہاں؟
➋ {وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ …: ”أَيَّامٌ“} سے مراد وہ دن ہیں جن میں کوئی نادر واقعہ مصیبت یا نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، جیسے یوم بدر وغیرہ۔ {”أَيَّامٌ“} کی اللہ کی طرف اضافت سے ان کی اہمیت بے حد بڑھ گئی۔ اگلی آیت میں چند {”أَيَّامٌ“} کا ذکر ہے، مگر ان واقعات سے عبرت صرف انھی کو ہوتی ہے جو بہت صابر اور بہت شاکر ہوں، کیونکہ ہر نیکی کی بنیاد صبر ہے اور شکر بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو صابر ہو، شکوہ شکایت اور بے صبری کرنے والوں کو شکر کی توفیق کہاں؟
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
5۔ 1 یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ ؑ کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انھیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ ؑ کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ 5۔ 2 اَ یَّام اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔ 5۔ 3 صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے ' (صحیح مسلم)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
5۔ اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزے دے کر بھیجا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ۔ اور انھیں اللہ تعالیٰ کے [6] ایام (واقعات عذاب الٰہی) سے عبرت دلاؤ۔ ان واقعات میں ہر صبر اور شکر [7] کرنے والے کے لئے بہت سے (عبرت کے) نشان ہیں
[6] تذکیر بایام اللہ سے مراد؟
ایام اللہ کے لفظی معنی ہیں اللہ کے دن اور اس سے ایسے دن مراد ہوتے ہیں جو تاریخ انسانی میں یادگار دن بن جاتے ہیں خواہ یہ خوشی کے ہوں یا مصیبت کے۔ بلکہ ایک ہی دن ایک فریق کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے اور دوسرے فریق کے لیے مصیبت کا۔ جیسے 10 محرم کو فرعون اور اس کے لشکری دریا میں غرق ہوئے۔ اب یہی دن بنی اسرائیل کے لیے تو انتہائی خوشی کا دن تھا کہ انھیں فرعونیوں کے مظالم سے نجات ملی اور وہ اسی خوشی میں 10 محرم کو ہر سال روزہ بھی رکھا کرتے تھے اور یہی دن فرعونیوں کے لیے مصیبت کا دن تھا یہی صورت 17 رمضان 2ھ کی ہے۔ مشرکین مکہ کو غزوہ بدر میں شکست فاش ہوئی۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا جبکہ قریش مکہ کے لیے یہ دن بڑی مصیبت کا دن تھا۔ اسی طرح پہلی مجرم قوموں پر جو عذاب الٰہی نازل ہوتا رہا تو انھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور تذکیر بایام اللہ سے مراد ایسے ہی یادگار دنوں سے عبرت حاصل کرنا ہے اور یہ قرآن کریم کا خاص موضوع ہے جسے بے شمار مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ انبیاء اور اقوام سابقہ کے حالات اور قصص بیان کرنے سے قرآن کا اصل مقصد بایام اللہ ہی ہوتا ہے۔
[7] صبر و شکر کی فضیلت:۔
صبر اور شکر دو ایسی صفات ہیں جو ایک مومن کی پوری زندگی کو محیط ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صابر اور شاکر الفاظ کے بجائے صبار اور شکور کے الفاظ استعمال فرمائے اور یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں یعنی ایک مومن کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کوئی دکھ، تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے اور جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں یا کوئی خوشی یا بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ اور زندگی بھر اس کا یہی معمول رہتا ہے اس کے مقابلے میں ایک دنیا دار یا ایک کافر کی زندگی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے جب اسے کوئی دکھ پہنچے یا تنگدستی کے دن آئیں تو اللہ کے شکوے اور جزع و فزع کرنے لگتا ہے اور جب کوئی خوشی نصیب ہو یا خوشحالی کے دن آئیں تو ایسا احسان فراموش بن جاتا ہے کہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ یعنی ایام اللہ سے عبرت صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو صبر اور شکر کی صفات سے متصف ہوں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
نو نشانیاں ٭٭
’ جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے، اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں ‘، جن کا بیان آیت «وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» ۱؎ [17-الإسراء:101] میں ہے۔
انہیں بھی یہی حکم تھا کہ ’ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ۔ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا، کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لیے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ‘۔
مسند کی مرفوع حدیث میں «بِأَيَّامِ اللَّهِ» کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے۔ [مسند احمد:122/5:حدیث صحیح و اسنادہ ضیعف] لیکن ابن جریر رحمہ اللہ میں یہ روایت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا، اس میں ہر صابر و شاکر کے لیے عبرت ہے۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:418/7]
صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے } }۔ [صحیح مسلم:2999]
انہیں بھی یہی حکم تھا کہ ’ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ۔ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا، کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لیے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ‘۔
مسند کی مرفوع حدیث میں «بِأَيَّامِ اللَّهِ» کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے۔ [مسند احمد:122/5:حدیث صحیح و اسنادہ ضیعف] لیکن ابن جریر رحمہ اللہ میں یہ روایت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا، اس میں ہر صابر و شاکر کے لیے عبرت ہے۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:418/7]
صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے } }۔ [صحیح مسلم:2999]