ترجمہ و تفسیر — سورۃ إبراهيم (14) — آیت 13
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے کہا ہم ہر صورت تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا لازماً تم ہماری ملت میں واپس آئو گے، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ یقینا ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت13) ➊ {وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ: } کفار نے اپنی کثرت اور اہل ایمان کی قلت دیکھ کر اپنے رسولوں کو یہ دھمکی دی کہ تمھارے سامنے صرف دو راستے ہیں یا تو ہم تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا پھر تم اسلام چھوڑ کر واپس آ جاؤ گے، جیسا کہ اس وقت ہند کے کافر مسلمانوں کو قتل یا ارتداد یا نکل جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
➋ { اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا:} یا تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے کفار کا یہ کہنا ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیھم السلام نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے، بلکہ بات یہ تھی کہ نبوت سے پہلے انبیاء علیھم السلام ان کے بتوں کے معاملہ میں خاموش رہتے تھے، جس پر انھوں نے بطور خود یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ان کے مذہب پر ہیں، یا اس { لَتَعُوْدُنَّ } کا معنی { لَتَصِيْرُنَّ } ہے، یعنی تم ہماری ملت میں آ جاؤ گے۔ (دیکھیے اعراف: ۸۸) یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو کفر کو چھوڑ کر پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ (رازی)

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

13۔ 1 جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' (وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ 171؀ښ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ 172؀۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ 173؁)۔ 37۔ الصافات:171)۔ پہلے ہوچکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ فتح مند اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا ' (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ)۔ 58۔ المجادلہ:21)۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

13۔ آخر کافروں نے اپنے رسول سے کہہ دیا کہ: ہم تمہیں اپنے ملک [17] سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہمارے دین میں آنا ہو گا“ تب ان کے پروردگار نے ان کی طرف [18] وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو یقیناً ہلاک کر دیں گے
[17] کافروں کا جواب یا دین میں واپس آؤ یا ہم تمہیں نکال دیں گے:۔
مخالفین حق جب حق کے دلائل کے سامنے عاجز آجاتے ہیں تو ان کے لیے آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو یہ دھمکی دے دیتے ہیں کہ یا تو ہماری بات مان لو اور ہمارے دین میں واپس آجاؤ یا پھر ہم تمہیں یہاں سے جلا وطن کر دیں گے اور ان کا یہ اقدام در اصل ان کی ذہنی شکست کا اعتراف ہوتا ہے اور ایسی دھمکی ہر نبی کو دی جاتی رہی ہے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ انھیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰؑ پر نازل ہوتا تھا۔ پھر ساتھ ہی کہنے لگا: ”کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں یہاں سے نکال دے گی اور میں اس وقت تمہاری کچھ مدد کر سکتا“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا: ”کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟“ اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے پوچھی کہ پوری قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین سمجھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے محبوب تھے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا: ”ہاں! کیونکہ جس نبی نے بھی ایسی دعوت پیش کی اس کی قوم اسے نکالتی چلی آئی ہے“ [بخاري، باب كيف كان بدء الوحي الي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم]
چنانچہ ایک وقت آیا جب آپ کی قوم نے بھی آپ کو وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
[18] کافروں کی تدبیریں انھیں پر الٹ پڑتی ہیں:۔
جب حق و باطل کا معرکہ اس مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے کہ مخالفین حق اپنے نبی کو وطن سے نکالنے یا اس کی جان ہی لینے کے درپے ہو جاتے ہیں تو اس وقت سے ہی مخالفین کی تباہی کے اسباب کا آغاز ہو جاتا ہے اور پیغمبروں کو اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جس مقام سے یہ تمہیں نکالنے کے درپے ہیں۔ ہم ان کو دفع کرنے کے بعد تمہیں اسی مقام پر لا کر آباد کریں گے اور قبضہ و اختیار عطا کریں گے یہ آیات اسی دور کی نازل شدہ ہیں جب قریش مکہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے یا قتل کرنے کی تدبیریں سوچ رہے تھے اور یہ آیات در اصل ان کے خلاف ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن وہ تو بہرصورت اپنے پیغمبر کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ لہٰذا اس طرف ان کا دھیان جاتا ہی نہ تھا۔ بالآخر ان کا وہی انجام ہوا جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ فتح مکہ کے بعد اسی جگہ کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا اور مخالفین حق میں سے اکثر اسلام لے آئے اور جو نہ لائے وہ اس جگہ سے از خود نکل کھڑے ہوئے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

آل لوط ٭٭
کافر جب تنگ ہوئے، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ «لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا» ۱؎ [7-الأعراف:88]‏‏‏‏ ’ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ‘۔
لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ «أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ» ۱؎ [27-النمل:55]‏‏‏‏ ’ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو، وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا ‘۔
اور آیت میں ہے کہ «وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا» ۱؎ [17-الاسراء:76]‏‏‏‏ ’ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم اس سر زمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے نکال دیں۔ پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے ‘۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ بھی فتح کر لیا۔
اور آیت میں ہے «وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» ۱؎ [8-الأنفال:30]‏‏‏‏ ’ اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر لیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ‘۔
اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
یہاں فرمان ہے کہ ’ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل