الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الٓرٰ ۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے، تاکہ تو لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے، ان کے رب کے اذن سے، اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بے حد تعریف والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الٓرٰ۔ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت2،1) ➊ { الٓرٰ: } حروف مقطعات کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔
➋ {كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ:” كِتٰبٌ “ } کو {” الٓرٰ “} کی خبر بنائیں تو معنی ہو گا کہ{” الٓرٰ “} ایک کتاب ہے، یعنی وہ حروف تہجی جن سے تمھارا کلام وجود میں آتا ہے، انھی سے یہ کتاب وجود میں آئی ہے، اگر مقابلے کی ہمت ہے تو آؤ انھی حروف سے تم صرف ایک سورت ہی بنا دو۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسے مبتدا محذوف {”هٰذَا“} کی خبر بنا لیں، پھر معنی ہو گا، یہ ایک کتاب ہے۔ ”نازل کیا“ کے لفظ سے اس کا بلندی سے اترنا اور اللہ تعالیٰ کا بلندی پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کو نہ لامکان کہہ سکتے ہیں اور نہ ہر جگہ میں کہہ سکتے ہیں، بلکہ وہ بلند ہے، عرش پر ہے۔ ”ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا“ سے اس کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔
➌ { لِتُخْرِجَ النَّاسَ:} یعنی یہ کتاب آپ پر نازل کی، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نکالیں۔ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث جو کتاب یعنی قرآن ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور رسول کو محض ڈاکیا قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر اس میں بار بار رسول کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، مثلاً دیکھیے آل عمران (۳۱، ۳۲)۔
➍ {مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ:} یعنی کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف۔ {” اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ “} یہ {” اِلَى النُّوْرِ “} ہی سے بدل ہے اور اسی کی وضاحت ہے، یعنی وہ نور کیا ہے، اس عزیز و حمید کا راستہ ہے جس کا نام نامی اللہ ہے، وہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا اکیلا مالک ہے۔ لفظ{ ” الظُّلُمٰتِ “ } کو جمع اور{ ” النُّوْرِ “} کو واحد لانے سے صاف ظاہر ہے کہ نور یعنی راہ ہدایت صرف ایک ہے یعنی اسلام، جبکہ تاریکیاں اور گمراہیاں بے شمار ہیں جو سب کی سب کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔
➎ {بِاِذْنِ رَبِّهِمْ:} اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی سیدھی راہ کی طرف لا سکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لا سکتا ہے۔ ابوطالب، آزر، ابن نوح اور نوح و لوط علیھما السلام کی بیویاں اس کی واضح مثالیں ہیں کہ رب کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے کفر کے اندھیروں سے نہیں نکل سکے۔
➏ { وَ وَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ: ” وَيْلٌ “} پر تنوین تعظیم کی ہے، معنی ہے بڑی ہلاکت، یعنی دنیا میں بھی ان کے لیے بربادی ہی بربادی ہے۔(دیکھیے توبہ: ۵۵۔ طٰہٰ: ۱۲۴ تا ۱۲۷) اور قیامت کے دن تو ان کی اس سے بھی بڑھ کر شامت آنے والی ہے۔ دنیا میں کفار کے لیے {” وَيْلٌ “} کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ خودکشی کی شرح آپ سب سے زیادہ کفار میں پائیں گے، خصوصاً جو ان میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مثلاً جاپان وغیرہ۔
➋ {كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ:” كِتٰبٌ “ } کو {” الٓرٰ “} کی خبر بنائیں تو معنی ہو گا کہ{” الٓرٰ “} ایک کتاب ہے، یعنی وہ حروف تہجی جن سے تمھارا کلام وجود میں آتا ہے، انھی سے یہ کتاب وجود میں آئی ہے، اگر مقابلے کی ہمت ہے تو آؤ انھی حروف سے تم صرف ایک سورت ہی بنا دو۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسے مبتدا محذوف {”هٰذَا“} کی خبر بنا لیں، پھر معنی ہو گا، یہ ایک کتاب ہے۔ ”نازل کیا“ کے لفظ سے اس کا بلندی سے اترنا اور اللہ تعالیٰ کا بلندی پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کو نہ لامکان کہہ سکتے ہیں اور نہ ہر جگہ میں کہہ سکتے ہیں، بلکہ وہ بلند ہے، عرش پر ہے۔ ”ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا“ سے اس کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔
➌ { لِتُخْرِجَ النَّاسَ:} یعنی یہ کتاب آپ پر نازل کی، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نکالیں۔ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث جو کتاب یعنی قرآن ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور رسول کو محض ڈاکیا قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر اس میں بار بار رسول کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، مثلاً دیکھیے آل عمران (۳۱، ۳۲)۔
➍ {مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ:} یعنی کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف۔ {” اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ “} یہ {” اِلَى النُّوْرِ “} ہی سے بدل ہے اور اسی کی وضاحت ہے، یعنی وہ نور کیا ہے، اس عزیز و حمید کا راستہ ہے جس کا نام نامی اللہ ہے، وہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا اکیلا مالک ہے۔ لفظ{ ” الظُّلُمٰتِ “ } کو جمع اور{ ” النُّوْرِ “} کو واحد لانے سے صاف ظاہر ہے کہ نور یعنی راہ ہدایت صرف ایک ہے یعنی اسلام، جبکہ تاریکیاں اور گمراہیاں بے شمار ہیں جو سب کی سب کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔
➎ {بِاِذْنِ رَبِّهِمْ:} اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی سیدھی راہ کی طرف لا سکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لا سکتا ہے۔ ابوطالب، آزر، ابن نوح اور نوح و لوط علیھما السلام کی بیویاں اس کی واضح مثالیں ہیں کہ رب کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے کفر کے اندھیروں سے نہیں نکل سکے۔
➏ { وَ وَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ: ” وَيْلٌ “} پر تنوین تعظیم کی ہے، معنی ہے بڑی ہلاکت، یعنی دنیا میں بھی ان کے لیے بربادی ہی بربادی ہے۔(دیکھیے توبہ: ۵۵۔ طٰہٰ: ۱۲۴ تا ۱۲۷) اور قیامت کے دن تو ان کی اس سے بھی بڑھ کر شامت آنے والی ہے۔ دنیا میں کفار کے لیے {” وَيْلٌ “} کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ خودکشی کی شرح آپ سب سے زیادہ کفار میں پائیں گے، خصوصاً جو ان میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مثلاً جاپان وغیرہ۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں (1) ان کے پروردگار کے حکم (2) سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ ا۔ ل۔ ر یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو تاریکیوں [1] سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے لوگوں کو اس راہ کی طرف لائیں جو غالب اور قابل حمد اللہ تعالیٰ کی راہ ہے
[1] ہدایت اور اللہ کا اذن؟
روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایا اس لیے صراط مستقیم صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ ٹیڑھی یا باطل کی راہیں لاتعداد ہو سکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے ان سب راستوں کو تاریکیوں سے تعبیر کیا۔ گویا اس کتاب قرآن کریم کو اتارنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ اور یہ کام تب ہی ہو سکتا ہے جب لوگوں کے پروردگار کو بھی انھیں راہ راست پر لانا منظور ہو۔ اور اس منظوری کا قانون یہ ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے اللہ یقیناً ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور یہی اس کی منظوری یا اذن ہوتا ہے لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کریں انھیں اللہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشتا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
تفسیر سورۂ ابراھیم ٭٭
حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ اے نبی! یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ، رسول تمام رسولوں سے افضل و بالا۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں۔
«اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» ۱؎ [2-البقرة:257] ’ ا اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ‘
«الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّـهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ» ۱؎ [57-الحديد:9] اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پا لیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے۔
«اللهِ ِ» کی دوسری قرأت «اللهُ» بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت «قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» ۱؎ [7-الأعراف:158]، میں۔
جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟
«اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» ۱؎ [2-البقرة:257] ’ ا اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ‘
«الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّـهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ» ۱؎ [57-الحديد:9] اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پا لیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے۔
«اللهِ ِ» کی دوسری قرأت «اللهُ» بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت «قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» ۱؎ [7-الأعراف:158]، میں۔
جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟