اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے، جنھیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک ایک مقرر وقت کے لیے چل رہا ہے، وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، کھول کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک ایک میعاد معین تک گردش کر رہا ہے۔ وہی (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتا ہے (اس طرح) وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت2) ➊ { اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ:} لفظ {” اَللّٰهُ “} اس پاک ہستی کا ذاتی نام ہے جس نے سب کچھ بنایا اور اسے چلا رہا ہے۔ اس ایک لفظ میں اس کی ساری صفات آجاتی ہیں۔ ایمان اس ہستی کی توحید، اس کے رسولوں کی تصدیق اور اس کے سامنے قیامت کو پیش ہونے کے عقیدے کا نام ہے۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے آسمان و زمین میں اپنی قدرت کی کچھ نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے، تاکہ وہ توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان لے آئے۔ سب سے پہلے آسمان کا ذکر فرمایا، سورۂ نازعات (۲۷) میں فرمایا: ”کیا تمھیں (پہلی بار یا دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو؟“ اپنے وجود اور آسمان کے وجود کا مقابلہ کرکے تو دیکھو، اور فرمایا: «{ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ }» [المؤمن: ۵۷] ”یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔“
➋ {بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا: ” عَمَدٍ “} اسم جمع ہے، جمع نہیں، اس کا مفرد{ ”عَمُوْدٌ“ } یا {”عِمَادٌ“} ہے۔ (شعراوی) اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسیع اور عظیم آسمانوں کو کسی بھی قسم کے ستونوں کے بغیر بلند کر دیا، تم خود انھیں دیکھ رہے ہو کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں، جب کہ تم چھوٹی سے چھوٹی چھت بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ محض اپنی قدرت اور بے پناہ قوت کے ساتھ اتنا اونچا بنانے کے بعد وہیں تھام کر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے، چنانچہ فرمایا: «{وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ }» [الحج: ۶۵] ”اور وہ آسمان کو تھام کر رکھتا ہے، اس سے کہ زمین پر گر پڑے مگر اس کے اذن سے۔“ مزید دیکھیے سورۂ فاطر(۴۱) اس صورت میں {” تَرَوْنَهَا “} (تم انھیں دیکھتے ہو) میں ضمیر کا مرجع لفظ {”السَّمٰوٰتِ “} ہو گا اور {” تَرَوْنَهَا “} الگ نیا جملہ ہو گا کہ تم خود آسمانوں کو اس حالت میں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ {”تَرَوْنَهَا “} کو{ ” عَمَدٍ “ } کی صفت قرار دیا جائے، پھر ترجمہ یہ ہو گا کہ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جنھیں تم دیکھتے ہو، گویا ستون ہیں مگر تمھیں نظر نہیں آتے، نہ کہیں نگاہ کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ آیت دونوں معنوں کا امکان رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں ممکن ہیں، اس لیے ترجمہ میں بھی دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ علمائے تفسیر میں سے کسی نے پہلے معنی کو ترجیح دی اور کسی نے دوسرے کو۔ امام المفسرین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا، حق یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کہیں جیسے اللہ نے فرمایا۔ (خلاصہ) یعنی پورے علم کے بغیر ایک معنی کو ترجیح نہ دیں۔ (واللہ اعلم) (یہاں طبری کے فیصلے کی پوری عبارت نہایت پُر لطف ہے) کیا معلوم کہ کسی وقت تجزیے سے ثابت ہو جائے کہ فضا میں نظر نہ آنے والی کوئی چیز موجود ہے جس پر آسمان قائم ہیں۔
➌ { ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ:} قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا سات جگہ آتا ہے، سورۂ اعراف (۵۴)، یونس (۳)، رعد (۲)، طٰہٰ (۵)، فرقان (۵۹)، سجدہ (۴) اور حدید (۴) اللہ تعالیٰ کے تعلق سے عرش کا ذکر اکیس (۲۱) مرتبہ اور ملکہ سبا کے تعلق سے چار (۴) مرتبہ آیا ہے۔ مستوی علی العرش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) اور سورۂ حاقہ (۱۷)۔
➍ { وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ:} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی چند نہایت واضح نعمتیں ذکر فرمائیں۔ تسخیر کا معنی ہے کسی کو اپنے تابع اور قابو میں کر لینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو اپنے تابع اور پوری طرح پابند کر رکھا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح جس کام پر لگا دیا ہے وہ اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ جو مدت مقرر کی ہے اس کے عین مطابق مقرر وقت پر چل رہے ہیں، یعنی قیامت تک یا اپنے دورے کے مقرر وقت کے مطابق، نہ ان کی رفتار بدلتی ہے نہ طلوع وغیرہ کے نظام میں فرق آتا ہے۔ سورج اپنا دورہ سال میں پورا کرتا ہے، چاند ایک ماہ میں۔ کسی بھی سیارے یا سورج اور چاند کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے نہ حادثہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت و حکمت کی کتنی بڑی نشانی ہے۔
➎ {يُدَبِّرُ الْاَمْرَ:} کسی کام کی تدبیر کا معنی اسے اس کے سب سے اچھے، مضبوط اور مکمل طریقے پر چلانا ہے۔ مختصر سے عطا کردہ اختیار سے تم جو تدبیریں کرتے ہو ان کا نتیجہ بھی دیکھ لو، کوئی پوری ہوتی ہے کوئی نہیں اور کوئی کسی حادثے کی نذر ہو جاتی ہے اور اس عزیز و حکیم کی تدبیر امور کو دیکھو۔
➏ { يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ:} اس میں کائنات میں موجود نشانیاں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل شدہ آیات بھی کھول کر بیان کرنا ہے کہ دونوں کس قدر واضح ہیں، جن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
➐ { لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ:} یعنی ان تمام آیات کی تفصیل کا مقصد تمھیں یہ یقین دلانا ہے کہ ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے پروردگار کے لیے تمھیں دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں اور ہر حال میں تمھیں اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔
➋ {بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا: ” عَمَدٍ “} اسم جمع ہے، جمع نہیں، اس کا مفرد{ ”عَمُوْدٌ“ } یا {”عِمَادٌ“} ہے۔ (شعراوی) اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسیع اور عظیم آسمانوں کو کسی بھی قسم کے ستونوں کے بغیر بلند کر دیا، تم خود انھیں دیکھ رہے ہو کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں، جب کہ تم چھوٹی سے چھوٹی چھت بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ محض اپنی قدرت اور بے پناہ قوت کے ساتھ اتنا اونچا بنانے کے بعد وہیں تھام کر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے، چنانچہ فرمایا: «{وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ }» [الحج: ۶۵] ”اور وہ آسمان کو تھام کر رکھتا ہے، اس سے کہ زمین پر گر پڑے مگر اس کے اذن سے۔“ مزید دیکھیے سورۂ فاطر(۴۱) اس صورت میں {” تَرَوْنَهَا “} (تم انھیں دیکھتے ہو) میں ضمیر کا مرجع لفظ {”السَّمٰوٰتِ “} ہو گا اور {” تَرَوْنَهَا “} الگ نیا جملہ ہو گا کہ تم خود آسمانوں کو اس حالت میں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ {”تَرَوْنَهَا “} کو{ ” عَمَدٍ “ } کی صفت قرار دیا جائے، پھر ترجمہ یہ ہو گا کہ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جنھیں تم دیکھتے ہو، گویا ستون ہیں مگر تمھیں نظر نہیں آتے، نہ کہیں نگاہ کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ آیت دونوں معنوں کا امکان رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں ممکن ہیں، اس لیے ترجمہ میں بھی دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ علمائے تفسیر میں سے کسی نے پہلے معنی کو ترجیح دی اور کسی نے دوسرے کو۔ امام المفسرین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا، حق یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کہیں جیسے اللہ نے فرمایا۔ (خلاصہ) یعنی پورے علم کے بغیر ایک معنی کو ترجیح نہ دیں۔ (واللہ اعلم) (یہاں طبری کے فیصلے کی پوری عبارت نہایت پُر لطف ہے) کیا معلوم کہ کسی وقت تجزیے سے ثابت ہو جائے کہ فضا میں نظر نہ آنے والی کوئی چیز موجود ہے جس پر آسمان قائم ہیں۔
➌ { ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ:} قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا سات جگہ آتا ہے، سورۂ اعراف (۵۴)، یونس (۳)، رعد (۲)، طٰہٰ (۵)، فرقان (۵۹)، سجدہ (۴) اور حدید (۴) اللہ تعالیٰ کے تعلق سے عرش کا ذکر اکیس (۲۱) مرتبہ اور ملکہ سبا کے تعلق سے چار (۴) مرتبہ آیا ہے۔ مستوی علی العرش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) اور سورۂ حاقہ (۱۷)۔
➍ { وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ:} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی چند نہایت واضح نعمتیں ذکر فرمائیں۔ تسخیر کا معنی ہے کسی کو اپنے تابع اور قابو میں کر لینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو اپنے تابع اور پوری طرح پابند کر رکھا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح جس کام پر لگا دیا ہے وہ اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ جو مدت مقرر کی ہے اس کے عین مطابق مقرر وقت پر چل رہے ہیں، یعنی قیامت تک یا اپنے دورے کے مقرر وقت کے مطابق، نہ ان کی رفتار بدلتی ہے نہ طلوع وغیرہ کے نظام میں فرق آتا ہے۔ سورج اپنا دورہ سال میں پورا کرتا ہے، چاند ایک ماہ میں۔ کسی بھی سیارے یا سورج اور چاند کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے نہ حادثہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت و حکمت کی کتنی بڑی نشانی ہے۔
➎ {يُدَبِّرُ الْاَمْرَ:} کسی کام کی تدبیر کا معنی اسے اس کے سب سے اچھے، مضبوط اور مکمل طریقے پر چلانا ہے۔ مختصر سے عطا کردہ اختیار سے تم جو تدبیریں کرتے ہو ان کا نتیجہ بھی دیکھ لو، کوئی پوری ہوتی ہے کوئی نہیں اور کوئی کسی حادثے کی نذر ہو جاتی ہے اور اس عزیز و حکیم کی تدبیر امور کو دیکھو۔
➏ { يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ:} اس میں کائنات میں موجود نشانیاں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل شدہ آیات بھی کھول کر بیان کرنا ہے کہ دونوں کس قدر واضح ہیں، جن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
➐ { لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ:} یعنی ان تمام آیات کی تفصیل کا مقصد تمھیں یہ یقین دلانا ہے کہ ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے پروردگار کے لیے تمھیں دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں اور ہر حال میں تمھیں اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری 2۔ 2 اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کرلیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہوسکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ) 41۔ فصلت:37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ (ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ) 16۔ النحل:12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
2۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر بلند کیا جو تمہیں نظر آتے ہوں [2] پھر اس نے عرش [3] پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو (ایک خاص قانون کا) پابند بنایا (اس نظام کی) ہر چیز ایک مقررہ مدت [4] تک کے لئے چل رہی ہے۔ وہی اس کائنات کے نظام کی تدبیر [5] کرتا ہے اور اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان کرتا ہے تاکہ تم لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات [6] کا یقین کرو
[2] آسمانوں کے ستون یا کشش ثقل؟
یعنی اس بات کا امکان ہے کہ آسمان ستونوں یا سہاروں پر قائم ہوں لیکن وہ ستون یا سہارے غیر مرئی ہوں، انھیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں سیدنا ابن عباسؓ، مجاہد، حسن بصری، قتادہ اور بعض دوسروں سے ایسی ہی روایت کی گئی ہے۔ ان غیر مرئی سہاروں کو ہم آج کل کی زبان میں کشش ثقل کہہ سکتے ہیں۔
[3] ﴿اِسْتَويٰ عَلَي الْعَرْشِ﴾ کی تفسیر کے لیے دیکھئے [7: 54 كا حاشيه نمبر 54]
[4] سیاروں کی گردش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کر دیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا: ﴿كُلٌ يَّجْرِيْ لاِجَلٍ مُّسَمًّي﴾ حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
[3] ﴿اِسْتَويٰ عَلَي الْعَرْشِ﴾ کی تفسیر کے لیے دیکھئے [7: 54 كا حاشيه نمبر 54]
[4] سیاروں کی گردش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کر دیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا: ﴿كُلٌ يَّجْرِيْ لاِجَلٍ مُّسَمًّي﴾ حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
[5] کائنات کے نظام سے وجود باری تعالیٰ کی دلیل:۔
یعنی سیاروں کی گردش کے جو قاعدے اور قوانین مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ان کے پابند ہیں۔ ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔ پھر وہ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے وہ خراب بھی ہو سکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ اس کی حرکت میں کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی وقت وہ تباہ بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے ان سیاروں کو صرف ان کی قوت جاذبہ اور دافعہ کے سپرد ہی نہیں کر رکھا بلکہ ان کی پوری پوری نگہداشت اور ان کی تدبیر یا واقع ہونے والی خامیوں کا علاج بھی کر رہا ہے۔
[6] کائنات کے وجود سے معاد پر دلیل:۔
اس جملہ میں موجودہ نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یعنی جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لا سکتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں اور اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو ہستی اس نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے۔ کیا وہ انسان کو ایسا ہی بے لگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے۔ لہٰذا اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھانے میں گزاری ہے۔ ان کو ان کی بد کرداریوں کی ضرور سزا دی جائے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حدود و قیود میں جکڑے رکھا۔ انھیں اس کا بدلہ بھی ضرور دیا جائے اور اس دنیا میں چونکہ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ لہٰذا از روئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے اردگرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ» [65- الطلاق: 12] یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت «وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» ۱؎ [22-الحج:65] سے بھی ظاہر ہے پس «تَرَوْنَهَا» اس نفی کی تاکید ہوگی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو، یہ ہے کمال قدرت۔
امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے ہیں جن میں ہے «وَأَنْتَ الَّذِي مِنْ فَضْلِ مَنٍّ وَرَحْمَةٍ بَعَثْتَ إِلَى مُوسَى رَسُولًا مُنَادِيَا فَقُلْتَ لَهُ: فَاذْهَبْ وَهَارُونَ فَادْعُوَا إِلَى اللَّهِ فَرْعَونَ الَّذِي كَانَ طَاغِيًا وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ هَذِهِ بِلَا وَتِدٍ حَتَّى اطْمَأَنَّتْ كَمَا هِيَا وَقُولَا لَهُ: أَأَنْتَ رَفَعْتَ هَذِهِ بِلَا عَمَدٍ أَرْفِقْ إِذًا بِكَ بَانِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ وَسْطَهَا مُنِيرًا إِذَا مَا جَنَّكَ اللَّيلُ هَادِيًا وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُرْسِلُ الشَّمْسَ غُدْوَةً فيُصْبِحَ مَا مَسَّتْ مِنَ الْأَرْضِ ضَاحِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُنْبِتُ الْحَبَّ فِي الثَّرَى فيُصْبِحَ مِنْهُ العُشْبُ يَهْتَزُّ رَابِيَا؟ وَيُخْرِجُ مِنْهُ حَبَّهُ فِي رُءُوسِهِ فَفِي ذَاكَ آيَاتٌ لِمَنْ كَانَ وَاعِيَا» تو اللہ وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لیے اس سے کہیں کہ اس بلند و بالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لیے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے۔
امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے ہیں جن میں ہے «وَأَنْتَ الَّذِي مِنْ فَضْلِ مَنٍّ وَرَحْمَةٍ بَعَثْتَ إِلَى مُوسَى رَسُولًا مُنَادِيَا فَقُلْتَ لَهُ: فَاذْهَبْ وَهَارُونَ فَادْعُوَا إِلَى اللَّهِ فَرْعَونَ الَّذِي كَانَ طَاغِيًا وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ هَذِهِ بِلَا وَتِدٍ حَتَّى اطْمَأَنَّتْ كَمَا هِيَا وَقُولَا لَهُ: أَأَنْتَ رَفَعْتَ هَذِهِ بِلَا عَمَدٍ أَرْفِقْ إِذًا بِكَ بَانِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ وَسْطَهَا مُنِيرًا إِذَا مَا جَنَّكَ اللَّيلُ هَادِيًا وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُرْسِلُ الشَّمْسَ غُدْوَةً فيُصْبِحَ مَا مَسَّتْ مِنَ الْأَرْضِ ضَاحِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُنْبِتُ الْحَبَّ فِي الثَّرَى فيُصْبِحَ مِنْهُ العُشْبُ يَهْتَزُّ رَابِيَا؟ وَيُخْرِجُ مِنْهُ حَبَّهُ فِي رُءُوسِهِ فَفِي ذَاكَ آيَاتٌ لِمَنْ كَانَ وَاعِيَا» تو اللہ وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لیے اس سے کہیں کہ اس بلند و بالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لیے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا۔ اس کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے۔ کیفیت، تشبیہ، تعطیل، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر و بالا ہے۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے۔
جیسے فرمان ہے کہ «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» ۱؎ [36-يس:38] ’ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے ‘۔ اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لیے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا۔ آیات و احادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»
جیسے فرمان ہے کہ «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» ۱؎ [36-يس:38] ’ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے ‘۔ اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لیے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا۔ آیات و احادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»
صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے۔ جیسے کہ «لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ» ۱؎ [41-الفصلت:37] سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے «الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:54] یعنی ’ سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں، وہی خلق و امر والا ہے، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ‘۔
وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا۔
وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا۔