ترجمہ و تفسیر — سورۃ الرعد (13) — آیت 1
الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
المر۔ یہ کامل کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الٓمرا۔ (اے محمد) یہ کتاب (الہیٰ) کی آیتیں ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ا ل م رٰ۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں ﻻتے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت1) ➊ {الٓمّٓرٰ:} یہ حروفِ مقطعات ہیں، ان کی تفصیل سورۂ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ شعراوی رحمہ اللہ نے یہاں ایک فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید سارا وصل پر مبنی ہے، یعنی ہر لفظ دوسرے سے ملا ہوا ہے، سوائے اس مقام کے جہاں وقف کرنا ہو، جیسا کہ آیت کا آخر وغیرہ، مثلاً اسی سورت کو لے لیں: «{ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ اس میں ہر لفظ پر اعراب پڑھیں گے، مگر حروف مقطعات{ الٓمّٓرٰ } کو ملا کر نہیں پڑھیں گے، بلکہ چاروں حرفوں کو الگ الگ پڑھیں گے، کیونکہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی پڑھایا، پھر آپ نے ایسے ہی پڑھا اور ہم تک تواتر سے ایسے ہی پہنچا۔
➋ { تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ:} کوئی لفظ جب مطلق بولا جائے تو اس سے کامل فرد مراد ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں: {فُلاَنٌ الرَّجُلُ} یعنی فلاں شخص مرد ہے، مطلب واقعی سچ مچ کامل مرد ہے، بخیل، بزدل، جھوٹا یا لولا لنگڑا نہیں۔ اسی طرح دین و عقائد میں {اَلْكِتَابُ} سے مراد کامل کتاب قرآن مجید لیا جاتا ہے۔ نحو میں سیبویہ کی کتاب کو {اَلْكِتَابُ} اور شہروں میں سے {مَدِيْنَةُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم } کو { اَلْمَدِيْنَةُ } کہا جاتا ہے۔
➌ { وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ:} یعنی آپ کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہی عین حق ہے، مگر اکثر لوگ غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ اس میں انسانوں کی اکثریت کی رائے کے پرستاروں کے لیے سبق ہے اور ان لوگوں کی تعریف بھی ہے جو ایمان سے بہرہ ور ہیں، وہ قلیل بھی ہو سکتے ہیں کثیر بھی، مگر اکثریت انھی کی ہے جو ایمان کی سعادت سے محروم ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

1۔ ا۔ ل۔ م۔ ر یہ الکتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق [1] ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس بات پر ایمان نہیں لاتے [1] یہ عین حق وہی باتیں ہیں جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں اصول دین رہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کی فرمانروائی میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور یہ کہ قیامت آکے رہے گی۔ یہ نظام درہم برہم ہو گا۔ دوسرا عالم بنایا جائے گا۔ جس میں تمام اچھے اور برے انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور یہ اللہ کی نازل کردہ آیات ہیں اور آپ کی نبوت برحق ہے اور یہی وہ باتیں ہیں جن پر مشرکین مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے۔ اس تمہید کے بعد اب آگے اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے سے متعلق دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

باب
سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں، اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموماً یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا ’ یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں ‘۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ پھر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے۔
«الْحَقُّ» خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی «الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ» لیکن ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول یہ ہے کہ واؤ زائد ہے یہ عاطفہ ہے اور صفت کا صفت پر عطف ہے جیسے ہم نے پہلے کہا ہے پھر اسکی شہادت میں شاعر کا قول لائے ہیں۔
پھر فرمایا کہ ’ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں‘۔ اس سے پہلے گزرا ہے کہ ’ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں ‘۔ ۱؎ [12-يوسف:103]‏‏‏‏ یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل