ترجمہ و تفسیر — سورۃ هود (11) — آیت 7
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ لَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّکُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ اور یقینا اگر توکہے کہ بے شک تم موت کے بعد اٹھائے جانے والے ہو تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ضرور ہی کہیں گے یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ (تمہارے پیدا کرنے سے) مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ ہی وه ہے جس نے چھ دن میں آسمان وزمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وه تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل واﻻ کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 7) ➊ {وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ:} اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم کو ثابت فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا بیان ہے۔ آسمان و زمین کی چھ دنوں میں پیدائش کے متعلق دیکھیے سورۂ اعراف(۵۴) اور حم السجدہ (۹ تا ۱۲)۔
➋ {وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ:} اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان و زمین پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، پھر سب سے پہلے کیا پیدا کیا؟ اس کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اہل یمن کے کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر (کائنات) کی ابتدا کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [كَانَ اللّٰهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهٗ وَكَانَ عَرْشُهٗ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَكَتَبَ فِيْ الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ] [بخاری، التوحید، باب: «‏‏‏‏و کان عرشہ علی الماء» ‏‏‏‏: ۷۴۱۸] اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھ دی۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [كَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاءِ] [مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسٰی صلی اللہ علیہما وسلم: ۲۶۵۳] اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔
سنن ترمذی (۳۱۰۹) اور ابن ماجہ (۱۸۲) کی روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: خلق کی پیدائش سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [كَانَ فِيْ عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ] { عَمَاءٌ} کا معنی نہایہ میں لکھا ہے، بادل، پتلا سا بادل یا نامعلوم چیز، جس کی حقیقت سے ہم ناواقف گویا اعمیٰ ہیں۔ حدیث کا ترجمہ ہے: اللہ تعالیٰ ایک عماء (نامعلوم چیز) میں تھا، اس کا اوپر خالی تھا اور اس کے نیچے بھی خلا تھا۔ مگر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے رازی اور دوسرے اہل علم رحمۃ اللہ علیھم نے اسے ضعیف کہا ہے، جبکہ استدلال خصوصاً عقیدے میں اور اتنے اہم مسئلہ میں صحیح حدیث ہی سے ہو سکتا ہے۔ صحیح حدیث جس سے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے، یہ ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ تَعَالَی الْقَلَمُ فَقَالَ لَهُ اكْتُبْ فَقَالَ رَبِّ وَ مَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ اكْتُبْ مَقَادِيْرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ] [أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر: ۴۷۰۰۔ ترمذی: ۳۳۱۹] بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو پیدا کیا قلم تھا تو اسے فرمایا: لکھ۔ اس نے کہا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ فرمایا: ہر چیز کی تقدیریں لکھ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہی (بات) صحیح ہے، البتہ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے قلم کی پیدائش اور تقدیر کا لکھا جانا پانی اور عرش کے بعد لکھا ہے۔ شاید ان کا استدلال اس آیت: «{ وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ سے ہو۔ (واللہ اعلم) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قلم سے پہلے عرش اور پانی کے پیدا کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس کے کچھ دلائل ذکر کیے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری میں { كِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ } کا پہلا باب۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، مگر وہ روایت ضعیف ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے {المنار المنيف } میں لکھا ہے کہ عقل کے متعلق تمام احادیث باطل ہیں۔
➋ {لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا:} اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ ہر بات کا علم ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آئندہ کیا ہو گا، مگر آئندہ ہونے والی چیز کے متعلق یہ علم کہ وہ واقع ہو چکی ہے، اس کے واقع ہونے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ آزمانے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق جو کچھ آئندہ ہونا ہے وہ وجود میں آ کر سب کے سامنے آ جائے اور نتیجہ دوسروں کے سامنے بھی ظاہر ہو جائے۔ قرآن مجید میں { لِيَعْلَمَ } اور { لِيَبْلُوَكُمْ } وغیرہ الفاظ جہاں بھی آئے ہیں ان سے مراد یہی ہے۔
➌ {اَحْسَنُ عَمَلًا:} یعنی آزمائش یہی نہیں کہ عمل میں برا کون ہے اور اچھا کون، بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا قدر دان ہے کہ عمل میں اچھائی کے درجات کو بھی ملحوظ رکھتا ہے کہ زیادہ اچھا کون ہے، جیسے فرمایا: «{ هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ [آل عمران: ۱۶۳] وہ لوگ (اللہ کی رضا چاہنے والے) اللہ کے ہاں کئی درجوں والے ہیں اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ بلکہ برے عمل میں بھی سب کو ایک جیسا نہیں رکھا، منافقین آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہیں، جبکہ ابو طالب صرف آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے۔ رہی یہ بات کہ کیسے پتا چلے گا کہ میں اچھا عمل کر رہا ہوں تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اچھے عمل کے لیے دو شرطیں ہیں، ایک یہ کہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، دوسری یہ کہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، کیونکہ اس میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ہے۔
➍ {وَ لَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ …:} اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت اور خلق (پیدا کرنے) جیسی صفات کو بادلائل ذکر کرنے کے بعد بھی اگر آپ ان مشرکوں سے کہیں کہ اتنی زبردست قوتوں والے رب نے تمھیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت، زمین و آسمان اور خود ان کو پیدا کرنے اور عرش عظیم کا مالک ہونے کو جاننے اور ماننے کے باوجود دوبارہ زندہ کرنے کی بات کرنے پر عقل و دانش سے مکمل عاری ہو کر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں، یعنی دوبارہ زندہ ہونے کی کچھ حقیقت نہیں، جو لوگ اسے مان بیٹھے ہیں ان پر جادو ہو گیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پھر تم اس جادو کی زد میں آنے سے کیسے بچ گئے؟

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

7۔ 1 یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی ' اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح مسلم 7۔ 2 یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ ملحوظہ: اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہوجائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

7۔ وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش [11] پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور اگر آپ انھیں کہیں کہ تم موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر فوراً کہنے لگتے ہیں کہ ”یہ تو صریح [12] جادو ہے“
[11] مادی اشیاء میں پانی سب سے پہلے پیدا کیا گیا:۔
اس آیت سے اور مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی یہ پانی کہاں تھا اور آیا یہ پانی وہی پانی ہے جو معروف ہے یا کوئی مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔
[12] تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے، دنیا دار الامتحان ہے:۔
اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے اور یہ زمین یہ آسمان یہ سورج یہ چاند یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے اور امتحان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے عمل کریں اور کامیاب ہوں اور کچھ برے عمل کریں اور ناکام ہوں، کامیاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ دیا جائے اور بد کرداروں کو پوری پوری سزا دی جائے پھر بعض اچھے اعمال یا برے اعمال اپنے پورے پورے بدلہ کے لیے ایک طویل مدت کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دنیا میں میسر آنا نا ممکن ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس عالم دنیا کے بعد ایک اور عالم قائم کیا جائے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے یہ معاد پر ایک دلیل ہوئی علاوہ ازیں اس موجودہ کائنات کا مربوط اور منظم نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کسی علیم و خبیر ہستی کا پیدا کردہ ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ایک کھیل تماشا ہو کیونکہ کھیل تماشہ کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی نا ممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں بری بھلی جیسی بھی چاہے زندگی گزار کر مر جائے اور اس سے کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہ ہو۔ لہٰذا عالم آخرت کا قیام اور مرنے والوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھا کھڑا کرنا ضروری ہوا اور کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب اور مسحور کر لیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کار گر نہ ہو گا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

تخلیق کائنات کا تذکرہ ٭٭
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ اسے ہر چیز پر قدرت ہے۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ اس سے پہلے اس کا عرش کریم پانی کے اوپر تھا ‘۔
مسند احمد میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! تم خوشخبری قبول کرو۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا خوشخبریاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا دیں اب کچھ دلوائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اہل یمن تم قبول کرو۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا ہاں ہمیں قبول ہے۔ مخلوق کی ابتداء تو ہمیں سنائیے کہ کس طرح ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تھا۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا۔‏‏‏‏ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا راوی حدیث سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی؟ } یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3191]‏‏‏‏
ایک روایت میں ہے { اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3191]‏‏‏‏ ایک روایت میں ہے { اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے ہرچیز کا تذکرہ لکھا۔ پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3191]‏‏‏‏
مسلم کی حدیث میں ہے { زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2653]‏‏‏‏
صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ { اے انسان! تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا ’ اللہ کا ہاتھ اوپر ہے ‘۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہو گا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے } ۱؎ [صحیح بخاری:4684]‏‏‏‏
مسند میں ہے { ابورزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا۱؎ [سنن ترمذي:3109،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏ یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔
امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا۔‏‏‏‏ وہب، ضمرہ، قتادہ، ابن جریر رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی۔‏‏‏‏
ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دوحصے کر دیئے۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے۔‏‏‏‏ سعد طائی فرماتے ہیں کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔‏‏‏‏
محمد بن اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا، پانی تھا، اس پر عرش تھا، عرش پر «ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، وَالْعِزَّةِ وَالسُّلْطَانِ، وَالْمُلْكِ وَالْقُدْرَةِ، وَالْحِلْمِ وَالْعِلْمِ، وَالرَّحْمَةِ وَالنِّعْمَةِ، الْفَعَّالُ لِمَا يُرِيدُ» تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ پانی کس چیز پر تھا؟ آپ نے فرمایا ہوا کی پیٹھ پر۔‏‏‏‏
پھر فرماتا ہے، ’ آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ یاد رکھو تم بے کار پیدا نہیں کئے گئے۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب ‘۔
اور آیت میں ہے «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» ۱؎ [23-المؤمنون:116، 115]‏‏‏‏ ’ کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے ‘۔
اور آیت میں ہے «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ» ۱؎ [51-الذاريات:56]‏‏‏‏ ’ انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں؟ ‘
یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیں؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلوص ہو اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہو۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بے کار اور غارت ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حالانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘۔
ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزرا۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی؟ یہ توبہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسان ہے۔
فرمان الٰہی ہے «وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» ۱؎ [30-الروم:27]‏‏‏‏ ’ اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے ‘۔
اور آیت میں ہے کہ «مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ۱؎ [31-لقمان:28]‏‏‏‏ ’ تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا ‘۔
لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کرتے تھے۔ کفر و عناد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے مؤخر کر دیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے مؤخر کیوں ہو گئے؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا ‘۔
امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور «وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ» ۱؎ [12-یوسف:45]‏‏‏‏ جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں۔ امام و مقتدی کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔
جیسے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں «اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» رضی اللہ عنہ [16-النحل:120]‏‏‏‏ آیا ہے۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ» ۱؎ [43-الزخرف:23]‏‏‏‏ ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے «وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ» ۱؎ [28-القص:23]‏‏‏‏ والی آیت میں اور آیت «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا» [16-النحل:36]‏‏‏‏ میں اور آیت «وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ» ۱؎ [10-يونس:47]‏‏‏‏ ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب امتی ہیں۔
جیسے مسلم کی حدیث ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا جو یہودی نصرانی میرا نام سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:153]‏‏‏‏ ہاں تابعدار امت وہ ہے جو رسولوں کو مانے۔
جیسے «كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ» ۱؎ [3-آل عمران:110]‏‏‏‏ والی آیت میں۔
صحیح حدیث میں ہے { میں کہوں گا «أُمَّتِي أُمَّتِي»۱؎ [صحیح بخاری:7510]‏‏‏‏
اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:159]‏‏‏‏ اور جیسے «مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ» ۱؎ [3-آل عمران:113]‏‏‏‏ میں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل