اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کو پروردگار ان کے ایمان کی وجہ سے (ایسے محلوں کی) راہ دکھائے گا (کہ) ان کے نیچے نعمت کے باغوں میں نہریں بہہ رہی ہوں گی
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کیے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 9) ➊ {يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِيْمَانِهِمْ:} یعنی ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت، یعنی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہو گی، حتیٰ کہ وہ (پل) صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ان دونوں معنوں میں باء سببیت کے لیے ہے، یہ باء استعانت کے لیے بھی ہو سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حدید (۱۲، ۱۳) میں فرمایا کہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا، جب کہ منافق مرد اور عورتیں ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے نور سے فائدہ اٹھا کر ساتھ چلنے کا موقع دو۔ گویا مومن اپنے نورِ ایمان کی مدد سے چلتے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں گے، جب کہ منافق اندھیرے میں رہ جائیں گے۔
➋ {تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ:} جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ محمد (۱۵)۔
➌ {فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ:} ان نعمتوں کی تفصیل بیان میں نہیں آ سکتی، فرمایا: «{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ }» [السجدۃ: ۱۷] ”پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰي قَلْبِ بَشَرٍ] [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب صفۃ الجنۃ:2824/4، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ]”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔“
➋ {تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ:} جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ محمد (۱۵)۔
➌ {فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ:} ان نعمتوں کی تفصیل بیان میں نہیں آ سکتی، فرمایا: «{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ }» [السجدۃ: ۱۷] ”پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰي قَلْبِ بَشَرٍ] [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب صفۃ الجنۃ:2824/4، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ]”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
9۔ 1 اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، بعض کے نزدیک یہ مدد مانگنے کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورة حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
9۔ بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے [13] ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا پروردگار انہیں ایسے نعمتوں والے باغوں کی راہ دکھلائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی [13] البتہ جن لوگوں نے اپنی خداداد عقل کو ٹھیک طرح استعمال کیا اس کی آیات میں غور و فکر کر کے اس کی معرفت حاصل کی۔ خالق کائنات اس کے بے پناہ اقتدار اور روز آخرت کا یقین کیا اور آخرت میں جوابدہی سے ڈرتے اور اللہ کے احکام کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا جس کی نعمتیں لا تعداد، بے حساب اور لازوال ہوں گی۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
خوش انجام خوش نصیب لوگ ٭٭
نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے۔ جنت میں پہنچ جائیں گے، نور مل جائے گا، جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے۔
پس ممکن ہے کہ «بِإِيمَانِهِمْ» میں (ب) سبب کی ہو، اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بدصورت، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کر کے لائیں گے۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے۔
ان کے صرف «سبْحانَك اللَّهُمّ» کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہو گا۔ «تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَـمٌ» ۱؎ [33-الأحزاب:44] ’ جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ‘، «لاَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِيماً» [56-الواقعة:25،26] ’ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات، صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ‘۔
در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا۔ «سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ» ۱؎ [36-يس:58] ’ مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘۔
پس ممکن ہے کہ «بِإِيمَانِهِمْ» میں (ب) سبب کی ہو، اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بدصورت، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کر کے لائیں گے۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے۔
ان کے صرف «سبْحانَك اللَّهُمّ» کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہو گا۔ «تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَـمٌ» ۱؎ [33-الأحزاب:44] ’ جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ‘، «لاَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِيماً» [56-الواقعة:25،26] ’ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات، صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ‘۔
در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا۔ «سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ» ۱؎ [36-يس:58] ’ مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘۔
فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آ کر سلام کریں گے، «وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍسَلَـمٌ عَلَيْكُمُ» ۱؎ [13-الرعد:23، 24] ’ ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے، کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ‘، آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں، اس کی بقاء میں، اپنی کتاب کے شروع میں، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں۔
اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَـبَ» ۱؎ [18-الكهف:1] ’ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ‘۔
«الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْض» ۱؎ [6-الأنعام:1] ’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ‘، وغیرہ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ { اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2835]
یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لامحالہ حمد ادا ہوگی۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے۔
اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَـبَ» ۱؎ [18-الكهف:1] ’ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ‘۔
«الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْض» ۱؎ [6-الأنعام:1] ’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ‘، وغیرہ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ { اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2835]
یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لامحالہ حمد ادا ہوگی۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے۔