اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی سفارش کرنے والا نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد، وہی اللہ تمھارا رب ہے، سو اس کی عبادت کرو۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تمہارا پروردگار تو خدا ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا وہی ہر ایک کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا، یہی خدا تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش پر قائم ہوا وه ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے واﻻ نہیں ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو، کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 3) ➊ {اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ …:} نبوت کے اثبات کے بعد توحید و قیامت کے دلائل شروع ہوتے ہیں۔ توحید کی پہلی اور اظہر من الشمس دلیل جو قرآن بار بار بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق و مالک، رب اور مدبر ہونا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱، ۲۲) یہ بات مکہ کے مشرک بھی مانتے تھے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۸۴ تا ۸۹) جب رب وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں کی جائے۔ اس آیت میں اور دوسرے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور دوسری صفات کو اس کے واحد معبود برحق ہونے کی دلیل بنایا ہے۔
➋ { فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ:} اس آیت میں دہر یہ کا بھی رد ہے جو رب تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں، جب معمولی سے معمولی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی تو سمجھ لو کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا عظیم الشان نظام، جس میں کوئی حادثہ یا تصادم نہیں، اسے بنانے والا تمھارا رب ہی ہے۔ چھ دنوں سے مراد یا تو وہ دن ہیں جن میں سے ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے، فرمایا: «{وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ }» [الحج: ۴۷] ”اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔“ یا ہمارے چھ دنوں کے برابر مدت مراد ہے، کیونکہ یہ دن رات تو سورج کی پیدائش کے بعد وجود میں آئے۔ (واللہ اعلم)
اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تدریج بھی ظاہر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ چاہتا تو سب کچھ ایک لمحے میں{”كُنْ“ } کہہ کر پیدا فرما لیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ زمین و آسمان کو مرحلہ وار پیدا فرمائے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ہر کام آرام و اطمینان کے ساتھ کرنے کا سبق ہے۔ کائنات کی اکثر اشیاء پر غور کریں تو وہ چھ مرحلوں سے گزر کر مکمل ہوئی ہیں، مثلاً انسان کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۱۲ تا ۱۴)۔
➌ { ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ …: } پھر عر ش پر بلند ہوا اور وہاں رہ کر اسے کائنات کی تدبیر کا مرکز بنایا۔ نیز دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) {” يُدَبِّرُ الْاَمْرَ “} سے معلوم ہوا کہ پیدا کرنے کے بعد اس کا سارا اختیار اور تدبیر و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرکین نے اختیار کچھ اور ہستیوں کے پاس سمجھ لیا، بھلا پیدا کرنے کے بعد اپنی ملکیت و اختیار کسی دوسرے کو کون دیتا ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ملکیت و اختیار بے بس مخلوق کو دے دے جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتی، حقیقت یہی ہے کہ مشرک سے بڑھ کر بے عقل کوئی نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے سورۂ روم (۲۸)۔
➍ {مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:} کفار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا خیال تھا اور ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو مالک تو نہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں کروا سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت کے ہاتھوں یا ان کی غیبی قوت سے مجبور ہو کر ان کی بات اور سفارش ماننا پڑتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان سے التجائیں کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صاف نفی فرما دی۔ ہاں، خود اللہ تعالیٰ کسی کو عزت بخشنے کے لیے اسے سفارش کی اجازت دے دے تو وہ سفارش کر سکے گا، مگر صرف اس کے لیے جس کے حق میں اجازت ملے گی۔ اس میں اس کا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۵)، طہ (۱۰۹)، سبا (۲۳) اور نجم (۲۶) بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سرے سے شفاعت ہی کی نفی کی ہے، جیسے فرمایا: «{ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ }» [المدثر: ۴۸] ”پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔“ اور فرمایا: «{ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ }» [البقرۃ: ۴۸، ۱۲۳] ”اور کسی جان سے کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔“ وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے کہ ان کی سفارش فائدہ نہیں دے گی، یا اجازت کے بغیر سفارش مراد ہے، ورنہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں شفاعت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ {”اِلَّا بِاِذْنِهٖ “} والی آیات سے بھی یہ شفاعت ثابت ہو رہی ہے، مگر یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہو گی۔
➎ {فَاعْبُدُوْهُ: } عبادت کا معنی ”پوجا کرنا“ بھی ہے اور پوری زندگی ”عبد “ یعنی اس کا فرماں بردار غلام (بندہ) بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لیے کسی غیبی قوت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ کے ساتھ خاص کیا ہے، پس {” فَاعْبُدُوْهُ “} کے معنی ہیں اسی کی پوجا کرو، اسی کو مشکلات دور کرنے کے لیے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی (غلامی) میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراؤ گے۔
➏ { اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ:} یہ اصل میں {” تَتَذَكَّرُوْنَ “} تھا، یہاں فکر کے بجائے ذکر کی دعوت دی ہے۔ ذکر یاد کرنے کو کہتے ہیں، نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مقصد ہے کہ اللہ واحد ہی کو عبادت کے لائق سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں، جو کچھ تمھارے گردوپیش ہے اور جو کچھ تمھارے ذہن میں موجود ہے اسی کو یاد کرو، نصیحت کے لیے وہی کافی ہے۔
➋ { فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ:} اس آیت میں دہر یہ کا بھی رد ہے جو رب تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں، جب معمولی سے معمولی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی تو سمجھ لو کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا عظیم الشان نظام، جس میں کوئی حادثہ یا تصادم نہیں، اسے بنانے والا تمھارا رب ہی ہے۔ چھ دنوں سے مراد یا تو وہ دن ہیں جن میں سے ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے، فرمایا: «{وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ }» [الحج: ۴۷] ”اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔“ یا ہمارے چھ دنوں کے برابر مدت مراد ہے، کیونکہ یہ دن رات تو سورج کی پیدائش کے بعد وجود میں آئے۔ (واللہ اعلم)
اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تدریج بھی ظاہر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ چاہتا تو سب کچھ ایک لمحے میں{”كُنْ“ } کہہ کر پیدا فرما لیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ زمین و آسمان کو مرحلہ وار پیدا فرمائے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ہر کام آرام و اطمینان کے ساتھ کرنے کا سبق ہے۔ کائنات کی اکثر اشیاء پر غور کریں تو وہ چھ مرحلوں سے گزر کر مکمل ہوئی ہیں، مثلاً انسان کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۱۲ تا ۱۴)۔
➌ { ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ …: } پھر عر ش پر بلند ہوا اور وہاں رہ کر اسے کائنات کی تدبیر کا مرکز بنایا۔ نیز دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) {” يُدَبِّرُ الْاَمْرَ “} سے معلوم ہوا کہ پیدا کرنے کے بعد اس کا سارا اختیار اور تدبیر و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرکین نے اختیار کچھ اور ہستیوں کے پاس سمجھ لیا، بھلا پیدا کرنے کے بعد اپنی ملکیت و اختیار کسی دوسرے کو کون دیتا ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ملکیت و اختیار بے بس مخلوق کو دے دے جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتی، حقیقت یہی ہے کہ مشرک سے بڑھ کر بے عقل کوئی نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے سورۂ روم (۲۸)۔
➍ {مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:} کفار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا خیال تھا اور ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو مالک تو نہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں کروا سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت کے ہاتھوں یا ان کی غیبی قوت سے مجبور ہو کر ان کی بات اور سفارش ماننا پڑتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان سے التجائیں کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صاف نفی فرما دی۔ ہاں، خود اللہ تعالیٰ کسی کو عزت بخشنے کے لیے اسے سفارش کی اجازت دے دے تو وہ سفارش کر سکے گا، مگر صرف اس کے لیے جس کے حق میں اجازت ملے گی۔ اس میں اس کا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۵)، طہ (۱۰۹)، سبا (۲۳) اور نجم (۲۶) بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سرے سے شفاعت ہی کی نفی کی ہے، جیسے فرمایا: «{ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ }» [المدثر: ۴۸] ”پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔“ اور فرمایا: «{ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ }» [البقرۃ: ۴۸، ۱۲۳] ”اور کسی جان سے کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔“ وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے کہ ان کی سفارش فائدہ نہیں دے گی، یا اجازت کے بغیر سفارش مراد ہے، ورنہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں شفاعت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ {”اِلَّا بِاِذْنِهٖ “} والی آیات سے بھی یہ شفاعت ثابت ہو رہی ہے، مگر یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہو گی۔
➎ {فَاعْبُدُوْهُ: } عبادت کا معنی ”پوجا کرنا“ بھی ہے اور پوری زندگی ”عبد “ یعنی اس کا فرماں بردار غلام (بندہ) بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لیے کسی غیبی قوت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ کے ساتھ خاص کیا ہے، پس {” فَاعْبُدُوْهُ “} کے معنی ہیں اسی کی پوجا کرو، اسی کو مشکلات دور کرنے کے لیے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی (غلامی) میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراؤ گے۔
➏ { اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ:} یہ اصل میں {” تَتَذَكَّرُوْنَ “} تھا، یہاں فکر کے بجائے ذکر کی دعوت دی ہے۔ ذکر یاد کرنے کو کہتے ہیں، نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مقصد ہے کہ اللہ واحد ہی کو عبادت کے لائق سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں، جو کچھ تمھارے گردوپیش ہے اور جو کچھ تمھارے ذہن میں موجود ہے اسی کو یاد کرو، نصیحت کے لیے وہی کافی ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔ 3۔ 2 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ 3۔ 3 مشرکین و کفار، جو اصل ' مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ 3۔ 4 یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
3۔ تمہارا پروردگار یقیناً وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر قرار [5] پکڑا، وہی کائنات کا انتظام چلاتا ہے، کوئی اس کے ہاں سفارش نہیں کر سکتا الا یہ کہ پہلے اس کی اجازت حاصل ہو۔ ان صفات کا مالک ہے تمہارا پروردگار۔ لہذا اسی کی عبادت کرو۔ کیا تم غور نہیں کرتے
[5] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو:۔
اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آ گئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر 54) پھر وہ کائنات کو پیدا کر کے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلا رہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہٰذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی با اختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بتلائے جا چکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کر لینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کر دی جائیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
تخلیق کائنات کی قرآنی روداد ٭٭
تمام عالم کا رب وہی ہے۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا، پھر عرش پر وہ مستوی ہوگیا، جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے، جو سرخ یاقوت کا ہے، جو نور سے پیدا شدہ ہے۔ یہ قول غریب ہے۔
وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے «لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ» [34-السبأ:3] ’ اس سے کوئی زمین و آسمان کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ‘، اسے کوئی کام مشغول نہیں کر لیتا، وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کر سکتی۔ «وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ» ۱؎ [11-ھود:6] ’ ہر چھوٹے بڑے کا، ہر کھلے چھپے کا، ہر ظاہر باہر کا، پہاڑوں میں سمندروں میں، آبادیوں میں، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے ‘۔
«وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ» ۱؎ [6-الأنعام:59] ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ‘۔
کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا، ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے، کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کر سکے، «مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ» ۱؎ [2-البقرہ:255] ’ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ‘۔
وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے «لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ» [34-السبأ:3] ’ اس سے کوئی زمین و آسمان کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ‘، اسے کوئی کام مشغول نہیں کر لیتا، وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کر سکتی۔ «وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ» ۱؎ [11-ھود:6] ’ ہر چھوٹے بڑے کا، ہر کھلے چھپے کا، ہر ظاہر باہر کا، پہاڑوں میں سمندروں میں، آبادیوں میں، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے ‘۔
«وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ» ۱؎ [6-الأنعام:59] ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ‘۔
کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا، ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے، کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کر سکے، «مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ» ۱؎ [2-البقرہ:255] ’ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ‘۔
«وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْئاً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَى» ۱؎ [53-النجم:26] ’ آسمان کے فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر زبان نہیں کھولتے۔ اسی کو شفاعت نفع دیتی ہے جس کے لیے اجازت ہو ‘۔
یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو۔ اسے واحد اور لاشریک مانو۔
مشرکو! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے۔ اس کے وہ خود قائل تھے۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے۔
یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو۔ اسے واحد اور لاشریک مانو۔
مشرکو! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے۔ اس کے وہ خود قائل تھے۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے۔