پرانے سامان کو نئے سامان کے ساتھ ملا کر بیچنے کا حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

پرانے سامان کو نئے سامان کے ساتھ ملا کر بیچنے کا حکم
کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو پرانی ہونے پر متغیر ہو جاتی ہیں، اگرچہ ان میں واضح طور پر کوئی خرابی نہیں ہوتی، ایسی اشیا کو نئی اشیا کے ساتھ ملاناجائز نہیں، بلکہ علاحدہ علاحدہ ہر ایک کے درمیان فرق کرنا چاہیے کیونکہ یہی مکمل خیر خواہی کا تقاضا ہے۔
اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ متغیر نہیں ہوتیں، ایسی اشیا کو نئی کے ساتھ ملانے میں کوئی حرج نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی کے پاس لوہے کاسامان ہو جو وقت بدلنے کے ساتھ متغیر ہوا ہو نہ اس کی ساخت ہی تبدیل ہوئی ہو، اسے نئے سامان کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ نہ حکم بدلا ہے نہ قیمت اور نہ لوگوں کی اس میں رغبت ہی بدلی ہے، لہٰذا اس سامان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینے میں کوئی فراڈ اور دھوکا نہیں۔
خرید و فروخت کرنے والوں کو حکم ہونا چاہیے کہ اگر وہ اپنی بیع میں سچ بولیں اور ہر چیز بیان کر دیں تو ان کی بیع بابرکت ہو جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹ جاتی ہے، لہٰذا جو شخص لوگوں کے ساتھ معاملات کرتا ہے، اس کو اس حدیث کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل احادیث نبویہ بھی زیر نظر رکھنی چاہیے۔
«لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه» [صحيح البخاري، رقم الحديث 13 صحيح مسلم 45/71]
”تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“
فرمان نبوی ہے:
”جو یہ پسند کرتا ہے کہ اسے جہنم سے دور کر دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے اور اس حالت میں اس کی موت واقع ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے پاس ایسے ہی آئے جس طرح وہ ان کا اپنے پاس آنا پسند کرتا ہے۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 4191 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3956]
نیز فرمایا:
«من غش فليس منا» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
جب انسان ان عظیم ترین، روشن اور درست بنیادوں پر اپنے معاملات کی بنیاد رکھتا ہے تو اس کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے، پھر اگر وہ تھوڑا بھی کمائے تو اس میں بھی برکت ہوگی، لیکن اگر وہ ان بنیادوں سے ہٹ گیا اور اس نے بہت زیادہ کما لیا تو اس نے بہت زیادہ میں کوئی بھلائی نہیں، اس سے برکت اٹھالی جاتی ہے، لہٰذا یہ آدمی اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس کا مال بہت زیادہ ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہوگا، اس کے مال پر کوئی بھی مصیبت ٹوٹ سکتی ہے، وہ خود یا اس کے خاندان میں سے کوئی فرد کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے جو اس ساری کمائی کو ختم کر سکتی ہے۔
لہٰذا انسان کو لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملات کرنے سے بچنا چاہیے جس طرح وہ خود اپنے لیے پسند نہ کرتا ہو۔ واللہ اعلم
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 8/230|]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: