الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ
”خالہ، ماں کے درجے میں ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ: 2699]
فوائد :
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے فیصلے کے مطابق جب آئندہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو پکڑ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا۔ اس لڑکی کے متعلق سیدنا علی، سیدنا زید اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچی، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے گھر میں اس کی خالہ ہے اور خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ: 2699]
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کو بچی کی پرورش و تربیت کا حق تفویض کیا ہے۔ اس سلسلہ میں نوزائیدہ بچے کی خیرخواہی اور اس کی بہبود کو پیش نظر رکھنا ہو گا کیونکہ بچہ کم عقل اور ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔ اگر باپ کے مقابلے میں ماں زیادہ صحیح تربیت کر سکتی ہو تو باپ کے مقابلہ میں ماں کو ترجیح دی جائے گی۔ چنانچہ ایک ماں نے بچے کی پرورش کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے اور مجھ سے اس بچے کو چھیننا چاہتا ہے حالانکہ میرا پیٹ بچے کے لئے برتن، میری چھاتی اس کے لئے مشکیزہ اور میری آغوش اس کے لئے جائے قرار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی اس وقت تک تو ہی اس کی حقدار ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق : 2276]
واضح رہے کہ ماں کا یہ استحقاق عقد ثانی سے پہلے پہلے ہے۔ جب وہ نکاح کرے گی تو اس کا یہ حق ساقط ہو جائے گا کیونکہ عقد ثانی کے بعد اس کی مصروفیات بچے کی پرورشت اور تربیت میں حائل ہو سکتی ہیں۔ اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ماں کے ہاں ماحول اچھا نہیں اور بچے پر برے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے تو اسے بچے کی پرورش و تربیت کا حق نہیں دیا جائے۔