تنظیم نسل کاکیا حکم ہے
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

تنظیم نسل کاکیا حکم ہے؟

جواب:

تنظیم نسل وہ مسئلہ ہے کہ آج اسلامی ممالک کے مسلمان اس کی لپیٹ میں ہیں، اس کی کئی صورتیں ہیں، جن کی اصل تنظیم نسل پر ابھارنے والاسبب ہے، مثلاًً جب تنظم نسل مسلمان خیرخواہ ڈاکٹرز کے مشورہ کی بنیاد پر ہو، اور ڈاکٹرز کی طرف سے یہ مشورہ عورت کی بحالی صحت کے لیے ہو جس میں زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے بگاڑ آچکا ہو، پس جب مسلمان ماہر ڈاکٹر کا مشورہ اس بنیاد پر ہو تو تنظیم نسل کا یہ معقول عذر ہے، یہ اس صورت کی مثال ہے جس میں تنظیم نسل جائز ہے۔
اس کے برعکس مثال: جب تنظیم نسل کا سبب فقر و فاقہ (کا ڈر اور خوف) ہو، لیکن وہ مادی حساب جن کو (تنظیم نسل پر ابھارنے والے) کفار عام طور پر (مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے) نمایاں اور ظاہر کیا کرتے ہیں، ان میں کا کوئی کہتا ہے: میں اور میری بیوی دو، اور دو ہی ہمارے بچے ہیں اور پانچواں ان کا کتا جیسا کہ قرآن میں (اصحاب کہف کے متعلق) ہے (کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصحاب کہف تین ہیں، چوتھا ان کا کتا، یا وہ پانچ ہیں، چھٹا ان کا کتا، یا وہ سات ہیں، آٹھواں ان کا کتا ہے) پس ان میں سے ہر ایک اپنا حساب لگاتا ہے کہ اس کا خر چ کتنا ہے اور ہماری آمدنی جو ہمیں حاصل ہو رہی ہے، وہ صرف ہمارے ہی اخراجات کے لیے کافی ہے، یعنی صرف پانچ افراد کے لیے۔
تو اسلام میں اس قسم کی تنظیم نسل جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کا داعیہ اور سبب زمانہ جاہلیت کا وہ خوف ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ نصیحت فرمائی ہے:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ» [17-الإسراء: 31]
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔“
خاص طور پر مسلمانوں کا تو اس بات پر ایمان ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے، کیونکہ مشہور و معروف حدیث کے مطابق اس کے عالم دنیا میں آنے سے پہلے جب وہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے۔ تو اس قسم کی تنظیم نسل، جس کا یہ مذکورہ سبب ہو، جائز نہیں ہے۔ اور اس کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس موضوع پر لمبی تفصیل ہے، مگر وقت قلیل ہے، لہٰذا ہم اسی قدر جواب پر اکتفاء کرتے ہیں۔
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: