شراب کی بیع اور شراب کے کارخانوں میں کام کرنا
شراب اور دیگر حرام اشیا کی خرید و فروخت بہت بڑی برائیوں میں سے ہے، اسی طرح شراب کی بھٹیوں میں کام کرنا بھی حرام اور برائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ» [المائدة: 2]
”اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شراب، منشیات اور سگریٹ کی بیع گناہ اور زیادتی میں تعاون کرنے کی ایک صورت ہے، بالکل اسی طرح شراب کے کارخانوں میں کام کرنا بھی گناہ اور زیادتی کے کام میں مدد دینا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ» [المائدة: 91,90]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کر دہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو؟“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، شرابی، ساقی، کشید کرنے والے، کشید کروانے والے، اٹھا کر لے جانے والے، جس کے لیے اٹھا کر لائی جائے، اس کے خریدار، فروخت کنندہ اور قیمت کھانے والے، ان تمام پر لعنت کی ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3674 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3380]
ایسے شخص کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ اس کام کی وجہ سے گناہ گار، نافرمان اور ناقص ایمان والا ہے اور اہل سنت کے ہاں روز قیامت یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوگا، چاہے اسے معاف کر دے اور بخش دے یا اگر وہ توبہ سے پہلے ہی مر گیا تو اس کو سزا دے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا» [النساء: 48]
”بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔“
یہ حکم ایسی صورت میں ہے جب وہ اس کی حلت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، اگر وہ اس کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو اس کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا، اگر وہ مر گیا تو اس کو حلال سمجھنے کی وجہ سے تمام علما کے ہاں نہ اسے غسل دیا جائے گا نہ اس کی نماز جنازہ ہی ادا کی جائے گی، کیونکہ اس کام کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کر رہا ہوتا ہے۔
یہی حکم اس بندے کا بھی ہے جو زنا کاری اور اغلام بازی کی حلت کا عقیدہ رکھتا ہے یا اس کے علاوہ دیگر متفقہ محرمات کی حلت کا عقیدہ رکھتا ہے۔ جیسے: والدین کی نافرمانی قطع تعلقی اور ناحق قتل۔
لیکن جو شخص ان میں سے کسی کام کا ارتکا ب کرتا ہے اور اس کو علم ہو کہ یہ حرام ہے، اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ اس کام کے کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہو رہا ہے، تو ایسا شخص کافر نہیں ہوگا، بلکہ فاسق ہوگا اگر اس نے موت سے قبل توبہ نہ کی تو آخرت میں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوگا، جس طرح شرابی کے حکم کے متعلق گزشتہ صفحات میں ذکر ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوی و المقالات: 349/19]