سوال : باپ کی طرف سے میری ایک بہن ہے جس کی عمر اکیس برس ہے۔ میرے باپ نے اس کا نکاح اس کی مرضی اور رائے لئے بغیر ایک شخص سے کر دیا۔ نکاح کے گواہوں نے اس امر کی جھوٹی گواہی دی کہ لڑکی اس نکاح پر راضی ہے اور شادی کی دستاویزات پر بھی لڑکی کی جگہ اس کی ماں نے دستخط کئے، اس طرح نکاح کی کاروائی تو مکمل ہوئی جبکہ لڑکی ابھی تک اسے رد کر رہی ہے۔ اس نکاح اور جھوٹے گواہوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : آپ کی بہن اگر کنواری تھی اور باپ نے اس شخص سے اس کا نکاح جبراً کیا ہے تو بعض اہل علم اس نکاح کی صحت کے قائل ہیں۔ ان کی رائے میں اگر مرد عورت کا (تمام صفات میں) مماثل ہو تو اگرچہ لڑکی ایسے شخص کو ناپسند کرتی ہو تب بھی باپ کو جبراً اس کا نکاح کرانے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس بارے میں راجح قول یہ ہے کہ باپ یا کسی بھی اور شخص کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لڑکی کا نکاح اس کے غیر پسندیدہ شخص سے کر سکیں چاہے وہ اس کا کفو ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تنكح البكر حتي تستاذن
”کنواری عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے۔ “
یہ حکم عام ہے اس بارے میں اولیاء میں سے کسی ایک کو مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ صحیح مسلم میں تو یوں ہے۔
البكر يستأذنها أبوها [صحيح البخاري كتاب النكاح باب 41 و مسلم كتاب النكاح باب 64 ]
”کنواری عورت سے اس کا باپ اجازت حاصل کرے۔ “
اس حدیث میں کنواری عورت اور باپ کا ذکر بطور نص موجود ہے۔ نزاعی مسئلے میں یہ حدیث نص ہے، لہٰذا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
اس بنا پر آدمی کی طرف سے اپنی بیٹی کا نکاح کسی ایسے شخص سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی حرام ہے۔ اور حرام نہ تو صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی نافذ، کیوں کہ ایسے حکم کی صحت اور نفاذ شارح علیہ السلام کی نہی کے منافی ہے کیونکہ اس سے شارح علیہ السلام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ امت اس فعل کی مرتکب نہ ہو۔ ہم اس حکم کو صحیح قرار دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسے ان احکام کی جگہ دے رہیں جنہیں شارح علیہ السلام نے مباح قرار دیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ لہٰذا راجح قول کی رو سے آپ کے باپ کی طرف سے لڑکی کا نکاح ایسے مرد سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی فاسد ہے اور اس معاملے میں عدالت کی مداخلت ضروری ہے۔ جہاں تک جھوٹے گواہوں کا تعلق ہے، تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ألا أخبركم بأكبر الكبائر، فذكرها وكان متكئا فجلس، ثم قال : ألا وقول الزور، ألا وقول الزور، ألا وشهادة الزور – فما زال يكررها حتي قالوا ليته سكت [ صحيح البخاري و صحيح مسلم ]
”کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر فرمایا : اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاٰئے بیٹھے رہے پھر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر یعنی سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمانے لگے : خبردار جھوئی بات سے بچو، خبردار جھوئی بات سے بچو، خبردار جھوئی گواہی سے بچو۔ راوی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دھراتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے کہا : کاش آپ مزید نہ دھرا ئیں۔ “
ان جھوٹے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہئے، حق بات کا اظہار کرنا چاہئیے اور شرعی عدالت کے سامنے برملا اعتراف کرنا چاہئیے کہ انہوں نے جھوئی گواہی دی تھی اور اب وہ اس سے رجوع کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس ماں نے بیٹی کی طرف سے جھو ٹے دستخط کئے تھے وہ اپنے اس فعل سے گناہ گار ہوئی ہے اس کے لئے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور آئندہ کے لئے ایسا کرنے سے رک جائے۔