حضرت محمدﷺ کی ولات سے متعلق ضعیف و من گھڑت روایات

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف پشستوں میں منتقل ہونا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب آدم جنت میں تھے تو آپ کہاں تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں آدم کی پشت میں تھا۔ اور آدم جب زمین پر اتارے گئے تب بھی میں ان کی پشت میں تھا۔ اور میں اپنے باپ نوح کی پشت میں تھا۔ جب میں کشتی میں سوار ہوا اور میں آگ میں ڈالا گیا ابراہیم کی پشت میں اور میرے ماں باپ کبھی زنا پر جمع نہیں ہوئے۔ اس طرح میں پاک پشتوں کے ذریعہ پاک اور مہذب رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔
جب بھی خاندان کی دو نسلیں پھوٹیں تو میں ان میں بہتر شاخ میں تھا۔ پھر اللہ نے مجھے سے نبوت کا عہد لیا۔ اور تورات میں میری بشارت دی اور انجیل میں میرا نام روشن کیا۔ میرے چہرے کی روشنی سے زمین چمکتی ہے۔ اور آسمان مجھے دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ اور میرے نام کی برکت سے الله تعالیٰ آسمانوں میں چڑھا۔ اور اپنے ناموں میں سے میرا مشتق کیا۔ پس عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں۔ [الحديث ]
تحقیق الحدیث :
یہ حدیث موضوع ہے،
اسے بعض قصہ گوؤں نے وضع کیا ہے۔
اور ہناد بن ابراہیم کو ثقہ قرار نہیں دیا جاتا۔
ہو سکتا ہے کہ ہناد کے شیخ علی بن محمد بن بکران نے اسے وضع کیا ہو یا علی بن محمد کے شیخ خلف بن محمد نے اسے وضع کیا ہو۔
حتیٰ کہ علی بن عاصم کہتے ہیں :
ہم یزید بن ہارون کو ہمیشہ جھوٹا سمجھتے رہے۔
یحییٰ بن معین کہتے ہیں :
یہ کچھ نہیں، لیکن تب بھی یہ کام متاخرین کے زیادہ لائق ہے۔ اس طرح سے اس روایت کا واضع عباس ہے۔ [الموضوعات لا بن جوذي ج1، ص 481 ]
من گھڑت ہے، دیکھیں۔ [الفوائد المجموعة فى الأحاديث الضعيفة والموضوعة كتاب فضائل النبى صلى الله عليه وسلم رقم الحديث 998 ]
امام شوکانی کہتے ہیں :
اس کو بعض قصہ گوواعظین نے گھڑا ہے۔
——————

آدم علیہ السلام نے حضور صلى الله عليه وسلم کے وسیلے سے دعا کی
مستدرک حاکم وغیرہ میں روایت ہے کہ جب آدم علیہ السلام سے غلطی کا ارتکاب ہوا (بھول کر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا) تو آدم علیہ السلام کہنے لگے : اے اللہ ! میں محمد کے طفیل تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو نے ہم کو کیسے جانا ہے۔ جبکہ میں نے اس کو ابھی پیدا ہی نہیں کیا ؟ تو آدم نے کہا : جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنایا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر میں نے دیکھا تو (ان پر ) لکھا ہوا تھا۔
لا إله إلا لله محمد رسول الله تو میں نے سمجھا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ جس کا نام ملایا ہے وہ تجھے ساری مخلوق سے زیادہ پسند ہے۔
الله تعالی نے فرمایا:
”اے آدم ! تو نے سچ کہا بلاشبہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہے۔ تو مجھ سے اس کے وسیلے سے دعا کر بے شک میں نے تجھے معاف کردیا کیونکہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تجھے کبھی پیدا نہ کرتا۔ “ [مستدرك حاكم 615/2 رقم الحديث 4228، مختصر المستدرك 1069/2، التوسل 115، الدر المنثور 58/1، كنز العمال 455/11، سلسلة الأحاديث الضعية رقم الحديث 25]
تحقیق الحدیث :
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔
مستدرک حاکم کی تلخیص میں امام ذہبی کہتے ہیں :
بل موضوع بلکہ یہ حدیث تو بنائی گئی ہے۔
اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔
اور عبد الله بن مسلم فہری کے متعلق میں نہیں جانتا یہ کون ہے۔
اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعف پر تمام محد ثین کا اتفاق ہے۔
یہ روایت قطعاً صحیح نہیں۔
——————

آدم علیہ السلام ہندوستان میں
اس روایت کا رد ( ابن عساکر ) کی یہ روایت بھی کرتی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کو ہندوستان میں اتارا گیا جب آدم تنہائی سے گھبرانے لگے تو جبریل علیہ السلام آئے اور اذان دی الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله یہ اذان سن کر آدم علیہ السلام کہنے لگے یہ محمد کون ہیں جبریل علیہ السلام نے جواب دیا تیری اولاد میں سے آخری نبی ہے۔
تحقیق الحدیث :
اگرچہ یہ روایت بھی ضعیف ہے،
مگر اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر آنے سے پہلے آدم علیہ السلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم نہیں تھا۔
اب جھوٹی روایات کے پجاریوں کو ان دونوں روایتوں میں کوئی تطبیق دینی چاہیے۔
——————

میں دو ذبیح انسانوں کا بیٹا ہوں

دو ذبیح سے مراد سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپ کے والد عبد اللہ ہیں۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة للالباني رقم الحديث 331]
تحقیق الحدیث :
البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ان الفاظ کے ساتھ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
[مستدرك حاكم 259/6 رقم الحديث 4048، طبقات ابن سعد جلد اول ص 125 ]
——————

نذر عبد المطلب کی استنادی حیثیت
پروفیسر ڈاکٹر محمد یسٰین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:
چشمه زمزم کی بازیابی کے ذکر کے ساتھ مصادر میں جناب عبد المطلب ہاشمی کی نذر قربانی کا حوالہ آتا ہے جس کے مطابق انہوں نے منت مانی تھی کہ پروردگار عالم اگر انہیں دس فرزند عطا فرمائے گا تو وہ ایک کو کعبہ کے پاس اللہ کی راہ میں قربان کر دیں گے کیونکہ زمزم کھودتے وقت بعض قریشی اکابر بالخصوص خاندان بنو عبد مناف کے ایک ذیلی گھرانے بنو نوفل کے سربراہ عدی بن نوفل نے ان کو طعنہ دیا تھا کہ اس قدر کدوکاوش کی ضرورت اور دوسروں سے بڑے بننے کی حاجت کیا ہے جبکہ ان کی اولاد ہی نہیں سوائے ایک فرزند کے۔ ابن اسحاق وغیرہ نے جس انداز سے یہ روایت نقل کی ہے وہ اس کی کمزوری کو اجاگر کرتی
ہے :
قال ابن اسحاق : وكان عبد المطلب بن هاشم، فيما يزعمون والله اعلم قد نذر . حين لقي من قريش ما لقي عند حفر زمزم. لئن ولد له عشرة نفر ثم بلغوا معه حتى يمنعوه لينحرن اجدهم لله عند الكعبة فلما توافي بنوه عشرة وعرف انه سيمنعونه، جمعهم ثم اخبره بنذره و دعاهم إلى الوفاء لله بذلك فأطاعوه [ابن هشام 64/1 او مابعد ]
بہرحال روایت کے مطابق جب ان کے دس فرزند جوان و مدافع ہو گئے تو انہوں نے اپنے فرزندوں کو جمع کر کے اپنی نذر ان کو بتائی اور اسے پورا کرنے کے لئے ان کو ہمت دلائی اور ان سب نے ان کی اطاعت کی۔
نذر پورا کر نے اور قربانی کے بدلے اونٹ ذبح کرنے کا واقعہ بہت طویل ہے۔ قصه مختصر یہ کہ کعبہ میں رکھے تیروں کے ذریعہ ہر بچہ اور فرزند کے نام پر ان کو چلانے کا فیصلہ ہوا اور جس فرزند کا نام نکل آئے اس کو قربان کرنے کا معاملہ طے کیا گیا۔ صاحب القداح یعنی کعبہ کے تیروں کے نگراں پروہت نے یہ کام انجام دیا اور ہر بار جناب عبد الله کا نام آتا رہا اور عبدالمطلب نے ان کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اکابر قریش نے اپنی مجالس میں جب یہ دیکھا کہ وہ عبداللہ کو قربان کرنے جا رہے ہیں تو وہ آڑے آئے اور دیوار آہنی بن کر کھڑے ہو گئے کہ وہ ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ بالآخر ان کے عزم مصمم کے سامنے یہ طے ہوا کہ ایک حجازی عرافہ ( کاہنہ) سے فیصلہ کرائیں اور وہ جو کہے وہی کریں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے وہ مدینہ گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ وہ خاتون محترمہ خیبر میں ہے تو اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس نے بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ دیا کہ فرزند کی جگہ اونٹ ذبح کر دیں۔ تیر اندازی کے ذریعہ اونٹوں کی تعداد بڑھتی گئی حتیٰ کہ وہ سو ہو گئی اور تب عبداللہ کی جگہ اونٹوں کا نام تھا اور عبد المطلب نے ان کو ذبح کر کے اپنی نذر پوری کی اور فرزند کو بچا لیا۔ [ابن هشام 164/1 – 168، سهيلي 131/2 – نيز 137- 139، ابن سعد 92-88/1،ابن اثير 0/2-7-14،بلاذري، 78/1 -79، طبري 2/ 239 – 243 بحواله روايت ابن اسحاق و تبصره ابن كثير 248/2 – 249 بحواله ابن اسحاق و يونس بن بكير۔ ]
تحقیق الحدیث :
نذر عبد المطلب اور قربانی عبداللہ کی تاریخ و زمانے پر روایات میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔
ابن اسحاق اور ان کے پیروکار مؤلفین سیرت کے مطابق اس واقعہ کے فورا بعد ہی عبداللہ کی شادی کا معاملہ ہوا۔ اس سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ فرزند کی قربانی کی منت اور اس پر عمل آوری کا کام ولادت نبوی سے ایک دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ یعنی 71- 570ء کا کیونکہ شادی کے قلیل عرصہ کے بعد ہی عبداللہ کی وفات کا سانحہ پیش آ گیا۔
قال ابن اسحاق: ثم انصرف عبد المطلب آخذا بيد عبد الله فمر به فيما يزعمون على امرأة من بني اسد بن عبد العزى بن قصي بن كلاب، و هي اخت ورقة بن نوفل وهى عند الكعبة فقالت له حين نظرت الى وجهه : اين تذهب يا عبد الله؟ قال : مع ابي، قالت: لك مثل الابل التى نحرت عنك وقع على الآن؟ قال: أنا مع ابي ولا استطيع خلافه ولا فراقه . . . . [ابن هشام 168/1 -169، سهيلي 141/2 -142 وما قبل نيز ابن سعد 95/1-97، طبري 243/2- 244،بحواله ابن اسحاق ابن كثير 244/2 -218، بحواله ابن اسحاق حلبي 39/1- 40 ]
بلاذری کی ایک روایت میں جو حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب بن عبد المطلب ہاشمی کی سند پرمروی ہے، زمزم کھودنے اور فرزند کی قربانی کی تاریخیں بیان کی گئی ہیں۔
اول الذکر واقعہ عبد المطلب ہاشمی کے چالیسویں سال میں پیش آیا اور دوسرا اس کے تیس سال بعد۔
واقدی کی روایت میں تصریح ہے کہ فرزند کے عوض اونوں کی قربانی کا واقعہ فیل کے حادثے سے پانچ سال قبل پیش آیا تھا اور اسی سال قربانی میں عبدالمطلب ہاشمی کے فرزند اکبر حارث کا انتقال ہوا اور مرحوم کا فرزند ربیعہ اس وقت دو برس کا بچہ تھا۔ لہٰذا ربیعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات سال بڑا تھا۔ [ بلاذري 78/1 – 79 ]
. . . . . . فمتى كان اراد ذبح ولده؟ قال : بعد ذلك اي حفر زمزم بثلاثين سنة. . . . . . وقال : وفي سنة التى نحر فيها عبد المطلب الأبل، مات الحارث بن عبد المطلب ولا بنه ربيعة سنتان- وقال الواقدي : وكان نحر الابل قبل الفيل بخمس سنين، فكان ربيعة اسن من رسول الله بسبع سنين.
اس بنا پر نذر قربانی کا یہ واقعہ 522 ء اور سے 567ء کے زمانے کا بن جاتا ہے جبکہ جناب عبدالمطلب کی عمر ستر سال تھی۔ توقيت واقعات کے لحاظ سے یہ تاریخ وسنہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وفات عبدالمطلب کے سن اور ان کی عمر اس سے مطابقت رکھتی ہے۔ یعقوبی کے مطابق زمزم کے دریافت کرنے کے دس سال بعد جناب عبداللہ کی شادی بی بی آمنہ سے ہوئی تھی اور ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ پندرہ سال بضع عشرة سنة کے بعد ہوئی تھی اور تزویج عبد اللہ اور ان کی نذر قربانی کے درمیان ایک سال کا وقفہ تھا یعنی شادی سے ایک سال قبل۔ یہ توقیت بلاذری سے کافی مختلف ہے اور واقعات کے سنین سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ [يعقوبي 9/2 ]
اس تقوی حساب اور تاریخی تعیین میں فرزندان عبد المطلب ہاشمی کے سنین ولادت و عمر کا حساب بھی رکھنا ضروری ہے۔ فرزند اکبر حارث بن عبدالمطلب اور فرزند آخر حمزہ بن عبد المطلب کے درمیان تیس بتیس سال کا وقفہ ہے۔ حارث کی ولادت کے وقت عبدالمطلب ہاشمی کی جو عمر بھی رہی ہو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے کے وقت والد ماجد کی عمر شریف ستر بہتر سال رہی تھی۔ ان کی ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تولد ہونے سے دو سال قبل کی ہے یعنی عام الفیل سے دو سال پہلے 569ء – 570ء کے زمانے میں وہ اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے تھے۔ یہ تخمینی حساب واقدی کی بیان کردہ روایت کی تصدیق کرتا ہے اور بلاذری کی روایت بسند عبدالله بن جعفر کی بھی۔ لہٰذا ابن اسحاق و ابن ہشام اور سہیلی وغیرہ کی توقیت کا اشارہ صحیح نہیں ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روایت ابن اسحاق میں دو واقعات ”قربانی فرزند اور تزویج عبداللہ“ کے درمیان روایت کی ایک کڑی غائب ہے۔
ابن سعد وغیرہ کی روایت میں اس کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ وہ عبداللہ کی شادی کے واقعہ کو بالکل الگ بیان کرتے ہیں اور اسے نذر والد و قربانی فرزند کے واقعات سے متصل نہیں کرتے۔ جیسا کہ مزید بحث آگے آتی ہے۔
ابن اسحاق کی روایت اور طریقہ روایت پر بھی یہاں چند الفاظ ضروری ہیں کہ وہ روایت کا مقام و مرتبہ متعین کرتے ہیں اور اس سے یہ گتھی بھی سلجھ سکتی ہے کہ ان دو واقعات کو جوڑنے میں کیا سبب ہوا۔ ابن اسحاق اگرچہ روایت یا روایات سیرت پر کھل کر تنقید کم کرتے ہیں لیکن ان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی روایت کو کمزور، ضعیف یا عوامی سمجھتے ہیں تو وہ ایک فقرہ جیسا کہ لوگوں کا گمان ہے فيما يزعمون ضرور درمیان روایت لاتے ہیں اور اگر مزید ان کو وجہ ضعف کی طرف اشارہ کرنا ہو تو والله اعلم کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ روایوں کے بیان کرنے کے لئے قالوا ( انھوں نے کہا) یا حدثوا ( انھوں نے بیان کیا) جیسے الفا ظ روایت کی جگہ زعموا / زعم (ان کا گمان/ خیال ہے ) لاتے ہیں اور یہ تمام اشارات تنقید بلکہ الفاظ تضعیف ہیں۔ عبد المطلب کی نذر کی روایت کے شروع میں فيما يزعمون، والله اعلم دونوں اسباب و علل تضعيف و تنقید موجود ہیں۔ عبد اللہ کے سب سے چہیتے فرزند احب ولد عبد المطلب اليه ہونے میں فيما يزعمون “موجود ہے۔ عرافہ سے متعلق روایت میں پھر یہ فقرہ آیا ہے۔ سو اونٹوں پر تیر نکل آنے کی روایت کے لئے فزعموا استعمال ہوا ہے اور پھر اسدی خاتون سے عہد اللہ کی ملاقات اور مکالمہ میں بھی فيما يزعمون دہرایا گیا ہے۔ یہ تمام علائم واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت عوامی ہے،کہانی ہے اور نا قابل اعتبار بھی۔
جناب عبد المطلب کی نذر، فرزند عبد اللہ کی قربانی کے ارادے، ان کے عوض اونٹوں کا نحر اور عبد اللہ کے والد ماجد کے ساتھ جاتے ہوئے راہ میں ایک خاتون کے ورغلانے غرضکہ اس پوری روایت کا دروبست یہ بتاتا ہے کہ راویان خوش بیان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند گرامی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح عظیم کے تاریخی واقعہ کو عبدaلمطلب و عبداللہ کے قصہ میں پوری طرح سے دہرایا ہے۔ واقعہ ابراہیمی کا پرتو قصہ عبداللہ پر صاب نظر آتا ہے۔ ان دونوں واقعات کی چند مماثلوں کا دوبارہ ذکر اس لحاظ سے ضروری معلوم ہوتا ہے۔
➊ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزند قربان کرنے کا حکم رویا صادقہ میں ہوا اور انھوں نے نذر مان لی۔ ان کے ذبح عظیم کا مقام بھی کعبۃ الله کے ارد گرد یا قریب تھا۔ سب سے محبوب فرزند کو قربان کرنے کا فیصلہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔ جناب عبد المطلب ہاشمی نے ایک تکرار کے دوران دس فرزندوں کے عطا ہونے پر کعبہ کے قریب ایک فرزند کو راہ الٰہی میں ذبح کرنے کی منت مان لی۔ عبدالمطلب ہاشمی نے اپنے محبوب ترین فرزند عبداللہ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ جناب عبد المطلب کو بھی بعض روایات کے مطابق خواب میں نذر پوری کرنے کا حکم ہوا تھا۔
➋ فرزند براہیمی نے مکمل اطاعت و سپردگی کا مظاہرہ کیا اور باپ کے فیصلہ قربانی کے سامنے سر جھکا دیا۔ جناب عبدالمطلب کے تمام فرزندان گرامی نے والد ماجد کی نذر پوری کرنے کے فیصلے سے اتفاق کیا اور سر اطاعت ختم کر دیا۔
➌ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ارادہ سے باز رکھنے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اطاعت پدری سے روکنے کا کام ابلیس نے انجام دیا۔ جناب عبدالمطلب کو اس عظیم ارادے سے روکنے کا فریضہ بنو مخزوم کے ننہالی رشتہ داروں نے انجام دیا۔
➍ فرزند کی جگہ جانور ذبح کرنے کا فیصلہ تقدیر الٰہی سے ہوا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک بکری یا بھیڑ قربان ہوئی۔ جناب عبداللہ کا سر عزیز بچانے کے لئے ایک کاہنہ /عرافہ کی خدمات لی گئیں اور اس نے فرزند کے بجائے اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا۔ جناب عبدالمطلب نے عرب روایت کے مطابق سو اونٹوں پر قرعہ نکالا اور فرزند کا بدل تلاش کر لیا۔
➎ قربان گاہ سے واپسی پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو کسی شیطانی یا ابلیسی ذات نے گمراہ کیا تھا یا نہیں مگر اس کے مقابلے میں جناب عبداللہ بن عبدالمطلب ہاشمی کو ایک عورت نے ”نحر ابل‘‘ (اونٹ کی قربانی) کا حوالہ دے کر جناب آمنہ بنت وہب زہری سے شادی کرنے سے روکنے کی ضرور کوشش کی مگر فرزند کی تابعداری نے اس کی چلنے نہ دی۔
ان تمام متشابہات اور واقعات کی مماثلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نذر عبد المطلب کا پورا واقعہ عوامی کہانی ہے اور حضرات ابراہیم و اسمعیل علیہم السلام سے دونوں ہاشمی اکابر کو مشابہ قرار دینے کی کوشش۔ یہ ایک اسطوری قصہ نگاری ہے مفصل بحث کے لئے ملاحظہ ہو : نذر عبدالمطلب ہاشمی کی استنادی حیثیت، الفرقان لکہنؤ اکتوبر 2002ء 33-44
——————

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے
محمد بن اسحاق کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن جبکہ ربیع الاول عام الفیل کی بارہ راتیں گزر چکی تھیں پیدا ہوئے۔
[ابن هشام مع الروض الانف للسهيلي 278/1] ضعیف ہے۔ [ طبقات ابن سعد 100/1 – 101، البدايه و النهايه 242/2 و المنتظم 245/2 و الدلائل لابي نعيم 110 ]
تحقیق الحدیث :
سیرت ابن هشام میں یہ روایت بغیر سند کے ہے۔
طبقات ابن سعد والی روایت میں واقدی متروک ہے۔
واقدی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ربیع الاول کو پیدا ہوئے، اس طرح ابومعشر کا قول ہے کہ آپ دو ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ مگر یہ ابومعشر ضعیف ہے۔
ولادت کی تاریخ میں متقدمین اور متاخرین سیرت نگار مؤرخین میں سخت اختلاف ہے۔ مگر اس پر اتفاق ہے کہ آپ پیر کے دن پیدا ہوئے۔ تاریخ کسی نے پانچ ربیع الاول، آٹھ ربیع الاول، نو، دس، بارہ اور سترہ ربیع الاول بھی کہا گیا ہے،
شیخ عبد القادر جیلانی کہتے ہیں : آپ دس محرم کو پیدا ہوئے۔ دیکھیں [غنية الطالبين]
زبیر بن بکار کے قول کے مطابق آپ رمضان کے مہینے میں پیدا ہوئے۔
سہیلی کہتے ہیں یہ قول ان کے موافق ہے جو کہتے ہیں کہ آپ کی والدہ محترمہ ایام تشریق میں حاملہ ہوئیں۔
(یہ زبیر بن بکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقریبا دو سو سال بعد پیدا ہوئے انہوں نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی یہ زبیر کا اپنا تخیل ہے۔)
زرقانی کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ رجب میں پیدا ہوئے، [زرقاني جلد 1 ص30]
ولادت کی تاریخ کا سو فیصد تعین کرنا، ڈیٹ فیکس کرنا یا اس پر اجماع کا دعویٰ کرنا یا یہ کہنا کہ جمہور نے ولادت کی تاریخ بارہ ربیع الاول بتائی ہے یہ بات درست نہیں، البته نو ربیع الاول اور بارہ ربیع الاول بہت سارے محقین کا موقف ہے۔
البتہ امام ابن جوزی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ آپ ربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے۔
حافظ ابن کثیر 12 کی روایت کو جمہور اور مشہور روایت کہتے ہیں،
اور ماہر فلکیات محمود پاشا نے 9 ربیع الاول کو راجح قرار دیا ہے،
اسی طرح شبلی نعمانی، انور شاہ کشمیری، قاضی سلیمان منصور پوری نے محمود پاشا کی تحقیق کو صحیح کہا ہے۔
اس کے باوجود ہمارا موقف یہ ہے کہ ولادت کی تاریخ سے تعین میں تمام روایات بےسند اور مشکوک ہیں اس وقت ہمارے پیش نظر سیرت کے سچے موتی امیر حمزہ کی کتاب ہے اس کے ص 52، 51 لکھا گیا ہے آپ پیر کے دن 12 ربیع الاول میں پیدا ہوئے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اکثر کا کہنا ہے کہ آپ ربیع الاول کی بارھویں رات کو پیدا ہوئے۔ یہ غلط بات ہے کہ آپ 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے؟
——————

انا اعرابكم آنا قرشي و السترضعت فى بني سعد بن بكر
ترجمہ :” میں تم میں سب سے زیادہ فصیح عربی بولنے والا ہوں، میں قریشی ہوں اور قبیلہ سعد بن بکر میں میں نے دودھ پیا ہے۔ “
تحقیق الحدیث :
اس کی سند ضعیف ہے۔ [اخرجه ابن سعد 71/1/1 والقاري فى الابرار 116]
اس میں مبشر عبید متروک ہے۔ [الروض الانف للسهيلي 295/1]
——————

بوقت ولادت سارا آنگن روشن ہو گیا ستارے قریب آ گئے
عثمان بن ابی العاص اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عبداللہ ہے، یہ کہتی ہیں میں آنحضرت کی ولادت کے وقت وہاں موجود تھی میں نے دیکھا کہ سارا گھر نور سے بھر گیا، ستارے قریب آگئے، کہتی ہیں میں ڈر گئی، کہیں ستارے مجھ پر نہ گر پڑیں۔
تحقیق الحدیث :
ضعیف ہے۔ [اخرجه ابو نعيم فى الدلائل 93 والبيهقي فى الدلائل 111/1 و اورده الهيثمي فى المجمع 220/8]
ہیثمی کہتے ہیں :
اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس میں عبدالعزیز بن عمران متروک ہے۔
[والطبري فى تاريخه 454/1 وأورده ابن جوزي فى المنتظم 247/2 و ابن اثير فى الكامل 356/1 وفي شرح المواهب 163/1 الروض الانف للسهيلي 279/1 ]
درست بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دن کے وقت ہوئی نہ کہ رات کے وقت۔
——————

میں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے حضور بڑے ہیں البتہ میری ولادت پہلے ہوئی
مطلب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا قیس بن محزمہ سے روایت کرتے ہیں، قیس کہتے ہیں میں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر کے بھائی قیاث بن اشیم سے پوچھا : تم بڑے ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں ؟ انہوں نے کہا : بڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں البتہ میری ولادت پہلے ہوئی اور میں نے ابرہہ کے ہاتھی کی لید سبز رنگ میں بدلی ہوئی دیکھی ہے۔
تحقیق الحدیث :
اس کی سند ضعیف ہے۔ [ترمذي : كتاب المناقب، باب ماجاء فى ميلاد النبى حديث 3619]
ترمذی کہتے ہیں :
حسن غریب ہے ہم اس کو صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، امام ترمذی نے اس باب میں صرف یہی ایک روایت نقل کی ہے۔
——————

حضور کی عمر آٹھ سال ہوئی تو دادا عبدالمطلب انتقال کر گئے؟
حضور کی عمر آٹھ سال ہوئی تو دادا عبدالمطلب انتقال کر گئے؟
تحقیق الحدیث :
یہ بات بھی سیرت کے سچے موتی ص 56 لکھی ہے۔
مگر یاد رہے یہ قول واقدی کا ہے اور واقدی متروک الحدیث ہے،
اگرچہ آپ کی عمر اس کے قریب قریب ہی تھی تاہم پورے وثوق و پختگی سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ والله اعلم
——————

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے رب کا جو مجھ پر انعام و اکرام ہے ان میں ایک یہ ہے کہ میں ختنہ شدہ پیدا ہوا اور میرے ستر کو کسی نے نہیں دیکھا۔
تحقیق الحدیث :
[اسناده ضعيف . رواه الطبراني فى الصغير رقم 936 ورواه ابن جوزي فى العلل المتناهبة رقم 264 ]
اس میں سفیان متفرد ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں :
یہ احادیث چوری کیا کرتا تھا، اس کی روایات من گھٹرت ہیں۔
ابن حبان کہتے ہیں :
اس سے احتجاج جائز نہیں۔
ہیثمی کہتے ہیں :
اس میں سفیان بن العفزازی متهم راوی ہے۔ [مجمع الزوائد رقم 13852 ]
——————

اس تحریر کو اب تک 57 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply