اسلام میں خرید و فروخت کے آداب اور شرعی احکام قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

روئے زمین کی سب سے محبوب جگہ مسجد اور سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہے، مگر بازار انسانی ضرورت بھی ہے۔ اس مضمون میں بازار اور خرید و فروخت سے متعلقہ آداب و احکام قرآن و حدیث کی روشنی میں ترتیب وار بیان کیے جائیں گے—ابتدا میں اصولی تمہید، پھر آدابِ تجارت، پھر اہم شرعی احکام، اور آخر میں خلاصہ و نتیجہ پیش ہوگا۔

ابتدا اسی بنیادی حقیقت سے:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
( أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُہَا ، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ أَسْوَاقُہَا ) [ مسلم : ۶۷۱]
’’ شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ان میں پائی جانے والی مساجد ہیں ۔ اور شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ان میں پائے جانے والے بازار ہیں ۔ ‘‘

بازار کی ناپسندیدگی اس کی ضرورت کے منافی نہیں؛ اس لیے بیع کو اللہ نے حلال قرار دیا:
﴿وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ [ البقرۃ : ۲۷۵]
’’اور اللہ نے خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام کردیا ہے ۔ ‘‘

عہدِ نبوی میں بھی بازار فعال تھے؛ کفارِ مکہ نے یہ اعتراض تک کیا:
﴿ مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْاَسْوَاقِ ﴾ [ الفرقان : ۷ ]
’’یہ کیسا رسول ہے کہ جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تجارت کرتے؛ ابو بکرؓ کپڑے کے تاجر، عبدالرحمن بن عوفؓ و عثمانؓ نامور تاجر تھے۔ پس بازار میں جانا شرعاً جائز ہے، مگر آداب لازماً ملحوظ رہیں۔ ذیل میں آداب:

خرید و فروخت کے آداب

① بازار میں داخل ہونے کی دعا

بازار میں قدم رکھنے سے پہلے مسنون دعا پڑھنا بڑی فضیلت کا سبب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ) [ الترمذی : ۳۴۲۸۔ وحسنہ الألبانی ]
’’ تو اللہ تعالی اس کیلئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، دس لاکھ گناہ مٹا دیتا ہے اور دس لاکھ درجے بلند کردیتا ہے ۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے:
( وَبَنٰی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ) [الترمذی : ۳۴۲۹ ۔ ابن ماجۃ : ۲۲۳۵ ۔ وحسنہ الألبانی ]
’’ اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

② ہنگامہ و شور سے اجتناب

بازار میں چیخ پکار و ہنگامہ آرازی ممنوع ہے؛ اسوۂ نبوی نرمی و وقار ہے:
( لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیْظٍ وَلَا سَخَّابٍ بِالْأسْوَاقِ ، وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰکِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ ۔۔) [ البخاری : ۴۸۳۸]
’’ آپ نہ بد اخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں ۔ اور نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں ۔ اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور در گذر کردیتے ہیں ۔‘‘

③ لین دین میں اخوت و نرمی کی روش

ایمان والوں کی باہمی نسبت بھائی چارے کی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ﴾ [الحجرات :۱۰]
اور فرمایا:
( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا ) [ البخاری : ۴۸۱ ، ۲۴۴۶ ، مسلم :۲۵۸۵ ]
’’ مومن دوسرے مومن کیلئے ایک مضبوط عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ۔ ‘‘

اس اخوت کا تقاضا ہے کہ خرید، فروخت اور تقاضے میں آسانی اختیار کی جائے:
( رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَی وَإِذَا اقْتَضَی ) [ البخاری : ۲۰۷۶ ]
’’ اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو اُس آدمی پر جو بیچتے وقت ، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نہایت آسان اور ( اپنے حق کو ) معاف کرنے والا ہو ۔ ‘‘

مزید فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ ، سَمْحَ الشِّرَائِ ، سَمْحَ الْقَضَائِ ) [ الترمذی : ۱۳۱۹۔ وصححہ الألبانی ]
( أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا کَانَ سَہْلًا مُشْتَرِیًا وَبَائِعًا وَقَاضِیًا وَمُقْتَضِیًا الْجَنَّۃَ) [ النسائی : ۴۶۹۶۔ وحسنہ الألبانی ]

کامل ایمان کا معیار بھی یہی خیرخواہی ہے:
( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ) [ البخاری :۱۳، ۱۲۳۹]
’’ تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ ‘‘

④ نظروں کی حفاظت

غیر محرم سے نظر بچانا فرض ہے:
﴿ قُلْ لِّلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ﴾ [ النور : ۳۰ ]

"مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔”

اور ارشاد علیؓ:
( یَا عَلِیُّ ! لَا تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ ، فَإِنَّ لَکَ الْأُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃُ ) [ ابو داؤد : ۲۱۴۹ ۔ ترمذی : ۲۷۷۷ ۔ وحسنہ الألبانی]

"اے علی! پہلی نظر کے بعد دوسری نظر مت دو، کیونکہ پہلی (غیر ارادی) نظر تمہارے لیے معاف ہے، لیکن دوسری (ارادی) تمہارے لیے نہیں۔”

نظرِ حرام آںکھ کا زنا ہے:
( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا ۔۔۔ فَزِنَی الْعَیْنَیْنِ النَّظَرُ ، وَزِنَی اللِّسَانِ النُّطْقُ ۔۔۔ ) [ مسلم : ۲۶۵۷]

"بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کے ہر بیٹے کے لیے زنا میں اس کا حصہ لکھ دیا ہے، وہ ضرور اس میں مبتلا ہوگا۔ پس آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے…”

 اخوت کے تقاضے—نفع رسانی کی عملی مثال

صحیحین کی ایک عبرت انگیز حکایت ہے: ایک شخص نے زمین کا ٹکڑا خریدا تو اس میں سونے سے بھرا گھڑا (ٹھلیا) ملا۔ خریدار نے امانت داری سے کہا: یہ سونا تم لے لو، میں نے تم سے صرف زمین خریدی ہے، سونا نہیں۔ بائع نے جواب دیا: میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ تھا، سب تمہیں بیچ دیا۔ دونوں اپنی بھلائی ایک دوسرے کے لیے چاہتے تھے، اس لیے معاملہ ایک ثالث کے پاس لے گئے۔ اس نے پوچھا: تمہاری اولاد ہے؟ ایک نے کہا: میرا لڑکا ہے، دوسرے نے کہا: میری لڑکی ہے۔ ثالث نے کہا: اسی سونے کے ساتھ دونوں کی شادی کر دو، کچھ اپنے اوپر خرچ کرو اور کچھ صدقہ کر دو۔

[ البخاری : ۳۴۷۲ ، مسلم : ۱۷۲۱ ]

⑤ سچائی—برکت کی کنجی، جھوٹ—برکت کی نفی


تجارتی میدان میں سچائی لازمی ہے۔
حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ !) … ( إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ ) [ترمذی : ۱۲۱۰ : حسن صحیح ، ابن ماجہ :۲۱۴۶]
’’تاجر قیامت کے دن فاجر اٹھائے جائیں گے، مگر جو تقویٰ اختیار کرے، نیکی کرے اور سچ بولے۔‘‘

سودے کی برکت سچائی اور وضاحت سے ہے:
( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا ) [ البخاری : ۱۹۷۳ ، مسلم : ۱۵۳۲]
ترجمہ: ‘‘اگر وہ دونوں سچ بولیں اور عیوب بیان کریں تو برکت ہوگی، اور جھوٹ وکتمان سے برکت مٹ جاتی ہے۔’’

عملاً ہمارے بازاروں میں جھوٹی تعریفیں، جعلی ماخذ، اور قیمتوں کی غیر حقیقی حد بندیاں عام ہو چکی ہیں؛ یہ سب برکت سلب کرنے والے امور ہیں۔ اس لیے ہر قول و تحریر میں سچائی لازم ہے۔

⑥ عیب بتانا—امانت داری کی بنیاد


بائع پر لازم ہے کہ مال کے عیوب واضح کرے:
( لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن یَّبِیْعَ شَیْئًا إِلَّا بَیَّنَ مَا فِیْہِ ، وَلَا یَحِلُّ لِمَنْ عَلِمَ ذَلِکَ إِلَّا بَیَّنَہُ ) [ المستدرک : ۲۱۵۷ ۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی]
اور فرمایا:
( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ ) [ابن ماجہ : ۲۲۴۶۔ وصححہ الألبانی]
ترجمہ: ‘‘مسلمان مسلمان کا بھائی ہے؛ عیب دار چیز بغیر عیب بتائے بیچنا حلال نہیں۔’’

⑦ دھوکہ دہی سے اجتناب—غش کی حرمت


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیلے غلے کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر نمی پائی تو فرمایا:
( أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی ) [ مسلم : ۱۰۲]
ترجمہ: ‘‘اسے اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے! جو دھوکہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔’’

آج ملاوٹِ خورونوش، لیبل و تاریخوں میں جعل سازی، وزن بڑھانے کی حیلہ سازی (مثلاً گوشت میں پانی) سب اسی غش کے مصادیق ہیں۔

⑧ جھوٹی قسم—سودا بکے، برکت مِٹے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ … اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ ، وَالْمَنَّانُ ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ) [ مسلم : ۱۰۶]
اور فرمایا:
( مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَان ) [ متفق علیہ ]
مزید ارشاد:
( اَلْحَلِفُ مُنَفِّقَۃٌ لِّلسِّلْعَۃِ وَمُمْحِقَۃٌ لِلْکَسْبِ ) [ البخاری : ۲۰۸۷ ، مسلم :۱۶۰۶]
ترجمہ: ‘‘قسم سے سودا تو بک جاتا ہے مگر کمائی کی برکت مٹ جاتی ہے۔’’

لہٰذا تجارت میں قسم بازی کی روش ختم کرنا لازم ہے۔

⑨ ماپ تول میں کمی سے اجتناب

اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے ساتھ تولنے کا حکم دیا ہے:
﴿ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾ [ الإسراء : ۳۵ ]
’’اور جب ماپو تو پورا پورا ماپو، اور تولو تو سیدھی ترازو سے تولو، یہی بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘

حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کو تنبیہ فرمائی:
﴿ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ﴾ [ ہود : ۸۵ ]
’’اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔‘‘

ماپ تول میں کمی کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں فساد قرار دیا اور متنبہ فرمایا:
﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾ [المطففین : ۱۔۳]
’’ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جو جب خود لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کے نتائج بیان فرمائے:
(وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ) [ ابن ماجۃ : ۴۰۱۹ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’جب کوئی قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے تو انہیں قحط، مہنگائی اور ظالم حکمران کے جبر میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔‘‘

آج کے دور کی مہنگائی، ظلم و بے برکتی اسی جرم کی اجتماعی سزا کی صورت ہے۔ علاج یہی ہے کہ ہم ماپ تول میں انصاف کریں بلکہ کچھ زیادہ تولنے کی سنت اپنائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( زِنْ وَارْجِحْ ) [ ابو داؤد : ۳۳۳۶، ترمذی : ۱۳۰۵ ، نسائی : ۴۵۹۲ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’وزن کرو اور تھوڑا سا زیادہ تول دو۔‘‘

اسی طرح قرض یا حق کی ادائیگی میں بھی بہتر طریقہ اپنانا پسندیدہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
( أَعْطُوْہُ فَإِنَّ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً ا) [ البخاری : ۲۳۰۶، مسلم : ۱۶۰۱]
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔‘‘

⑩ خرید و فروخت کے دوران اللہ کے ذکر اور نماز سے غفلت نہ ہو

اللہ تعالیٰ نے اُن تاجروں کی تعریف فرمائی جو تجارت میں مشغول رہتے ہوئے بھی نماز و ذکر الٰہی سے غافل نہیں ہوتے:
﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ … رِجَالٌ لاَّ تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ …﴾ [النور: ۳۶–۳۸]
’’وہ مرد جنہیں نہ تجارت اور نہ خرید و فروخت اللہ کے ذکر، نماز اور زکاۃ سے غافل کرتی ہے۔‘‘

یہی وہ تاجر ہیں جو دنیا و آخرت میں برکت پاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے رزقِ بے حساب سے نوازے جاتے ہیں۔

خرید و فروخت کے احکام

❖ ① فریقین کی باہمی رضامندی

بیع صرف باہمی رضامندی سے درست ہے:
﴿ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ﴾ [النساء : ۲۹]
’’آپس کے مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ، مگر باہمی رضا سے تجارت ہو تو جائز ہے۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( لَا یَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَیْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ ) [ ترمذی : ۱۲۴۸ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’بائع و خریدار کو خوش دلی سے جدا ہونا چاہیے۔‘‘

❖ ② شرحِ منافع کا تعین

اسلام نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی، بلکہ انصاف، نرمی اور خیرخواہی کے اصول دیے ہیں۔
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’اگر کوئی چیز دس میں خریدے تو گیارہ میں بیچ سکتا ہے، اور نقل و خرچ پر بھی منافع رکھ سکتا ہے۔‘‘
[ صحیح البخاری، کتاب البیوع ]

یعنی عمومی حالات میں دس فیصد تک نفع معتدل سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم ناجائز حد تک نفع کمانا، عوام کی مجبوریوں کا استحصال کرنا اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنا سب غیر شرعی رویے ہیں۔

❖ ③ سودا منسوخ کرنے کا اختیار

جب تک خریدار اور بائع جدا نہ ہوں، دونوں کو اختیار حاصل ہے کہ سودا برقرار رکھیں یا منسوخ کر دیں:
( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا ) [ البخاری : ۱۹۷۳ ، مسلم : ۱۵۳۲]

عملاً یہ حق اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر خریدار فوراً پشیمان ہو تو بائع کو دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ خوش دلی سے واپس لینا چاہیے۔

❖ ④ غیر موجود چیز کا سودا ممنوع

حضرت حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں:
( نَہَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِیْ ) [ ترمذی : ۱۲۳۳ ، ابو داؤد : ۳۵۰۵ ]
یعنی ’’جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو، اس کا سودا نہ کرو۔‘‘
کیونکہ اس میں دھوکے، خطرے اور عدمِ یقینی کے پہلو موجود ہوتے ہیں۔

❖ ⑤ مال کی منڈی میں پہنچنے سے پہلے سودا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( نَہَی أَنْ تُتَلَقَّی السِّلَعُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْأسْوَاقَ ) [ البخاری : ۲۱۶۵ ، مسلم : ۱۵۱۷ ]
اور مزید فرمایا:
( فَمَنْ تَلَقّٰی فَاشْتَرَی مِنْہُ ، فَإِذَا أَتَی سَیِّدُہُ السُّوقَ فَہُوَ بِالْخِیَارِ ) [ مسلم : ۱۵۱۹ ]
’’جو قافلے کو راستے میں مل کر خرید لے، پھر جب مالک بازار پہنچے تو اسے سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘

❖ ⑥ ماپ تول کے بغیر ڈھیر کا سودا

حضرت جابرؓ سے روایت:
( نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الصُّبْرَۃِ … ) [ مسلم : ۱۵۳۰ ]
یعنی ’’ماپ معلوم کیے بغیر غلے کے ڈھیر کا سودا مت کرو۔‘‘
اور جنہوں نے ایسا کیا انہیں عہد نبوی میں سزا دی جاتی تھی۔ [ البخاری : ۲۱۳۱ ]

❖ ⑦ مال منتقل کیے بغیر آگے بیچ دینا

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے:
( نَہَی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ ، حَتّٰی یَحُوْزَہَا التُّجَّارُ إِلٰی رِحَالِہِمْ ) [ ابو داؤد : ۳۴۹۹ ]
یعنی جب تک مال اپنے قبضے میں نہ لے لو، آگے مت بیچو۔

❖ ⑧ بیچ میں مداخلت (دوسرے کے سودے پر سودا کرنا)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( لَا یَبِیْعُ الرَّجُّلُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ ، وَلَا یَخْطُبُ عَلٰی خِطْبَۃِ أَخِیْہِ ، إِلَّا أَنْ یَّأْذَنَ لَہُ ) [ مسلم : ۱۴۱۲ ]
’’کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اس کی منگنی پر منگنی کرے، الا یہ کہ وہ اجازت دے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:
( لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلَی سَوْمِ أَخِیْہِ ) [ مسلم : ۱۴۱۳ ]
یعنی کسی کے سودے پر چڑھ بولی دینا یا بیچ میں گھس کر سودے کو خراب کرنا ممنوع ہے۔

❖ ⑨ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا

اسلام نے بھائی چارے اور خیر خواہی کا حکم دیا ہے۔ کسی کی مجبوری کا استحصال ایمان کے منافی ہے۔

حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں:
( بَایَعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی إِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ ) [ البخاری : ۵۷ ، مسلم : ۵۶ ]
’’میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز، زکاۃ اور ہر مسلمان کی خیرخواہی پر بیعت کی۔‘‘

عملی مثال: جریرؓ کے غلام نے گھوڑا تین سو میں خریدا، آپؓ نے گھوڑا دیکھا اور فرمایا کہ اس کی قیمت اس سے زیادہ ہے، اور خود بڑھاتے بڑھاتے آٹھ سو ادا کیے۔ [ فتح الباری ]

یہی حقیقی دیانت و اخوت ہے۔

❖ ⑩ سودا واپس موڑ لینا کارِ ثواب

اگر خریدار کسی وجہ سے خریدی ہوئی چیز واپس کرنا چاہے اور بائع کو نقصان نہ ہو، تو اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ ابو داؤد : ۳۴۶۲ ، ابن ماجہ : ۲۱۹۹ ]
’’جس نے کسی مسلمان کا سودا واپس کر لیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزش معاف فرمائے گا۔‘‘

❖ ⑪ حرام چیزوں کی تجارت

جو چیزیں شریعت نے حرام کی ہیں، ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ مثلاً:

  • شراب، سگریٹ، نشہ آور اشیاء

  • موسیقی و فحش مواد

  • حرام جانوروں کی تجارت

  • یا کسی حرام پیشے سے کمائی

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( نَہَی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَمَہْرِ الْبَغِیِّ وَحُلْوَانِ الْکَاہِنِ ) [ البخاری : ۲۲۳۷ ، مسلم : ۱۵۶۷ ]
’’کتے کی قیمت، زنا کی کمائی اور کاہن کی اجرت حرام ہے۔‘‘
اور بلی کی قیمت سے بھی منع فرمایا۔ [ مسلم : ۱۵۶۹ ]

البتہ شکاری کتا اس سے مستثنیٰ ہے۔ [ ترمذی : ۱۲۸۱ ]

❖ ⑫ مسروقہ مال کی خرید و فروخت

چوری شدہ مال خریدنا، اگر علم ہو کہ یہ مسروقہ ہے، حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ [ المائدۃ : ۲ ]
’’گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا:
( إِذَا كَانَ الَّذِی ابْتَاعَہَا مِنَ الَّذِی سَرَقَہَا غَیْرَ مُتَّہَمٍ، یُخَیَّرُ سَیِّدُہَا…) [ النسائی : ۴۶۸۰ ]
’’اگر کسی نے لا علمی میں چور سے مال خریدا ہو تو اصل مالک چاہے تو قیمت دے کر مال واپس لے، یا چور کے خلاف کاروائی کرے۔‘‘

یہی فیصلہ خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا۔ [ الصحیحۃ للألبانی : ۶۰۹ ]

❖ ⑬ مسجد میں خرید و فروخت ممنوع

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( إِذَا رَأَیْتُمْ مَّنْ یَّبِیْعُ أَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ فَقُولُوْا: لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ ) [ الترمذی : ۱۳۲۱ ]
’’اگر تم مسجد میں کسی کو خرید و فروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں برکت نہ دے۔‘‘

مسجد عبادت، ذکر اور تعلیم کے لیے ہے، تجارت کے لیے نہیں۔

❖ ⑭ حیلہ سازی کے ذریعے سودی معاملات

سود حرام اور اللہ و رسول ﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ لیکن بعض لوگ بیع کے حیلے سے سود کو "حلال” بناتے ہیں، مثلاً:

بیعِ عِینہ:
کوئی شخص ایک چیز قسطوں پر زیادہ قیمت میں خریدتا ہے اور فوراً اسی چیز کو کم قیمت پر نقد میں بیچ دیتا ہے تاکہ رقم ہاتھ آجائے — حقیقتاً یہ سود ہے، بیع نہیں۔

اس حیلے سے مال تو ملتا ہے مگر برکت اور دین دونوں ضائع ہوتے ہیں۔

❖ ⑮ ذخیرہ اندوزی (احتکار)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیٌٔ ) [ مسلم : ۱۶۰۵ ]
’’صرف گناہ گار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔‘‘

تاجر اگر اشیائے خوردنی روک کر مصنوعی قلت پیدا کرے تو حکومت کو حق حاصل ہے کہ جبراً وہ مال بازار میں لائے۔ اسلام معیشت میں عدل اور سہولت کا نظام چاہتا ہے، نہ کہ استحصال۔

حاصلِ کلام

✿ اسلام تجارت اور خرید و فروخت کو حلال اور پسندیدہ عمل قرار دیتا ہے بشرطیکہ وہ عدل، صداقت اور دیانت پر مبنی ہو۔
✿ جھوٹ، دھوکہ، غش، جھوٹی قسم، ذخیرہ اندوزی، ماپ تول میں کمی، حرام مال کی تجارت اور حیلہ سازی — یہ سب ناجائز اور ایمان کے منافی افعال ہیں۔
✿ خرید و فروخت کے آداب مثلاً نرم رویہ، عیب ظاہر کرنا، سچ بولنا، ذکر الٰہی میں غفلت نہ برتنا، اور بھائی چارہ قائم رکھنا — یہ سب باعثِ برکت اور اجرِ عظیم ہیں۔

نتیجہ

اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ تجارت صرف منافع کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت ہے اگر اس میں دیانت، رحم، اور خیر خواہی شامل ہو۔ تاجر اگر شریعت کے اصولوں کو اپنائے تو وہ نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ہم مرتبہ ہوگا، جیسا کہ حدیث میں آیا:
"التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشہداء” — ’’سچا اور امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تجارتوں میں سچائی، انصاف اور امانت داری اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے