سوال
اعمش کی تدلیس کو مولوی سرفراز صفدر دیوبندی نے غیر مضر لکھا ہے، اور اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی طبقات المدلسین کا حوالہ پیش کیا ہے۔ کیا یہ مؤقف درست ہے؟
یہ مؤقف درست نہیں، کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طبقات المدلسین میں کی گئی تقسیم کسی بھی دور میں حتمی یا حرفِ آخر نہیں سمجھی گئی۔
۱۔ طبقاتی تقسیم میں اختلافات کی مثالیں
مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے سفیان الثوری کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا،
جبکہ ان سے صدیوں پہلے گزرنے والے امام عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ (متوفی 444ھ) نے انہیں طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے۔
(کتاب بیان المسند والمرسل، ص 95–96)
خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اپنی تقسیم کو حرف آخر نہیں سمجھتے تھے۔
انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا اور ان کی روایت پر کلام بھی کیا۔
چنانچہ محدث محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”متقدمین کو تو چھوڑیں، لیکن متاخرین میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں گھوڑے کی حلت والے مسئلے میں ایک روایت کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہے۔ حالانکہ وہ دوسرے درجے کا مدلس ہے۔“
اسی طرح تلخیص الحبیر میں حافظ ابن حجر نے حدیث العینہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
“یہ حدیث معلول ہے، کیونکہ اس کے تمام رجال ثقہ ہونے کے باوجود اس میں اعمش ہے، جو مدلس ہے اور اس نے عطا سے سماع کی تصریح نہیں کی۔”
یعنی اعمش کی روایت عن سے ہے، اور یہی علت قرار دی۔
(مقالات راشدیہ، ج 9، ص 51)
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن جریج کو کثیر التدلیس ہونے کی بنا پر طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا،
جبکہ فتح الباری (5/8، 416) میں انہیں ربما دلس (کبھی کبھار مدلس) قرار دیا ہے۔
۲۔ طبقاتی تقسیم پر علماء کے اختلافات
اگر حافظ ابن حجر کی تقسیم حرفِ آخر ہوتی تو اہلِ علم کبھی اس سے اختلاف نہ کرتے،
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس کئی علماء نے مختلف آراء پیش کیں۔
چند مثالیں درج ذیل ہیں:
-
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سفیان الثوری کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا،
مگر علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:“اس میں سفیان الثوری ہیں، جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔”
(صیانة الإنسان عن وسوسة الشیخ دحلان، ص 3001) -
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اعمش کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا،
لیکن حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:“اس میں اعمش ہے جو مدلس ہے، اور عن سے روایت کرتا ہے، اس لیے قابلِ استدلال نہیں۔”
(دوام حدیث، ص 517) -
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی کو طبقہ ثانیہ میں شمار کیا،
مگر شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:“تیسری علت یہ ہے کہ ابراہیم بھی مدلس ہے (كما لا يخفي على الماهر بالأصول)۔”
(مقالات راشدیہ، ج 3، ص 81)
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف مقالات (ج 4، ص 168) میں اس طرح کی درجنوں مثالیں پیش کی ہیں۔
۳۔ نتیجہ
جب سرے سے یہ طبقاتی تقسیم ہی مختلف فیہ ہے،
تو طبقہ ثانیہ کے مدلسین کے عنعنہ کو ”اتفاقیہ قبولیت“ کا درجہ دینا بے معنی ہے۔
ہم کسی پر اپنا مؤقف مسلط نہیں کرتے، لیکن جو بات حق معلوم ہو، اسے بیان کرنا لازم سمجھتے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا محتاط موقف
ہمارے نزدیک سب سے محتاط رائے امام شافعی رحمہ اللہ کی ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
"ومن عرفناه دلس مرة فقد أبان لنا عورته في روايته”
“جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس نے ایک مرتبہ بھی تدلیس کی ہے، تو اس نے اپنی روایت میں اپنی کمزوری ظاہر کر دی۔”
(الرسالة، ص 1033)
اور فرمایا:
"لا نقبل من مدلس حديثًا حتى يقول فيه: حدثني أو سمعت”
“ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، جب تک وہ یہ نہ کہے: حدثني یا سمعت۔”
(الرسالة، ص 1035)
یہی موقف جمہور محدثین کا ہے۔
محدثین کی تائید
محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“چوتھا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی ثقہ راوی مدلس ہو، تو جب تک اس کی تحدیث ثابت نہ ہو، اس وقت تک اس کی روایت قابلِ قبول نہیں۔ یہی موقف امام شافعی اور خطیب بغدادی رحمہما اللہ کا ہے، اور اکثر اہلِ علم اسی کو قبول کرتے ہیں۔”
(ضوابط الجرح والتعديل، ص 84)
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقد اتفقوا على أن المدلس لا يُحتج بعنعنته”
“اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مدلس کا عنعنہ حجت نہیں۔”
(شرح النووی علی مسلم، ج 5، ص 58)
خلاصہ
لہٰذا یہ کہنا کہ “اعمش کی تدلیس غیر مضر ہے کیونکہ وہ طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے” —
یہ استدلال ضعیف ہے،
کیونکہ:
-
حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم حرفِ آخر نہیں۔
-
بڑے محدثین نے اس تقسیم سے اختلاف کیا ہے۔
-
جمہور محدثین کے نزدیک مدلس کی روایت عنعنہ سے قبول نہیں جب تک وہ تحدیث کی صراحت نہ کرے۔
واللہ أعلم بالصواب