سورت فاتحہ کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
سورت فاتحہ ایک سو تیرہ حروف ، پچیس کلمات اور سات آیات پر مشتمل ہے۔ جو نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کو قرآن کی اساس بھی کہا جاتا ہے، ام القرآن، الحمد لله، ام الکتاب، سبع مثانی اور قرآن عظیم اسی کے نام ہیں۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ اس کی مستقل آیت ہے۔
➊ سیدنا ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنت أصلي فى المسجد، فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أجبه، فقلت : يا رسول الله، إني كنت أصلي، فقال : ألم يقل الله: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ الانفال:24 ثم قال لي: لأعلمنك سورة هي أعظم السور فى القرآن، قبل أن تخرج من المسجد، ثم أخذ بيدي، فلما أراد أن يخرج قلت له : ألم تقل : لأعلمنك سورة هي أعظم سورة فى القرآن قال: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الفاتحة:1 هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذى أوتيته .
صحیح البخاري : 4474
میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی، میں جواب نہ دے سکا، نماز کے بعد عرض کیا : اللہ کے رسول! نماز پڑھ رہا تھا۔ فرمایا : کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا ؟ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمھیں اس کام کی طرف بلائیں، جس میں تمھارے لیے زندگی ہے، تو ان کی آواز پر لبیک کہیں۔ پھر فرمایا : مسجد سے نکلنے سے پہلے آپ کو قرآن کی افضل ترین سورت سکھاؤں گا۔ بعد میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد سے باہر جارہے تھے، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سب سے افضل سورت سکھانے کا وعدہ کیا تھا، فرمایا : وہ سورت فاتحہ ہے، یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم فى مسير له فنزل ونزل رجل إلى جانبه فالتفت إليه النبى صلى الله عليه وسلم فقال: ألا أخبرك بأفضل القرآن قال : فتلا عليه الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. الفاتحة:1
فضائل القرآن للنسائي: 35، إسناده صحيح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک صحابی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں پڑاؤ ڈالا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ ان کی طرف متوجہ ہوا اور فرمایا : آپ کو قرآن کی افضل ترین سورت نہ بتاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ کی تلاوت فرمائی ۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (774) نے صحیح کہا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ (560/1) نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
➌ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على أبى بن كعب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبى وهو يصلي، فالتفت أبى ولم يجبه، وصلى أبى فخفف، ثم انصرف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: السلام عليك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وعليك السلام، ما منعك يا أبى أن تجيبني إذ دعوتك فقال: يا رسول الله إني كنت فى الصلاة، قال : أفلم تجد فيما أوحي إلى أن اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ الأنفال: 24 قال: بلى ولا أعود إن شاء الله، قال: تحب أن أعلمك سورة لم ينزل فى التوراة ولا فى الإنجيل ولا فى الزبور ولا فى الفرقان مثلها؟ قال: نعم، يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف تقرأ فى الصلاة؟ قال: فقرأ أم القرآن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده، ما أنزلت فى التوراة ولا فى الإنجيل ولا فى الزبور ولا فى الفرقان مثلها، وإنها سبع من المثاني والقرآن العظيم الذى أعطيته.
مسند الإمام أحمد : 413,357/2 ، سنن الدارمي : 3376 ، سنن الترمذي : 2875، وسنده حسن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور آواز دی : اُبی! سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نماز میں تھے، آواز سنی ، لیکن جواب نہ دے سکے، البتہ نماز مختصر کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : السلام علیک یا رسول اللہ ! فرمایا : وعلیک السلام، ابی! میں نے بلایا تھا تو جواب کیوں نہیں دیا ؟ ، عرض کیا : اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا، فرمایا : کیا آپ نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا کہ جب اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کی طرف بلائیں، جس میں تمھارے لیے زندگی ہے، تو ان کی آواز پر لبیک کہیں۔ عرض کیا : جی ضرور! آئندہ ایسا نہیں کروں گا، ان شاء اللہ! فرمایا : کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایسی سورت سکھاؤں، جس کی مثل تورات، انجیل، زبور اور فرقان (قرآن) میں نازل نہیں ہوئی؟ عرض کیا : جی ہاں اللہ کے رسول! فرمایا : آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تب سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے سورت فاتحہ تلاوت کی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تورات، انجیل، زبور اور فرقان (قرآن) میں اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (861) نے صحیح کہا ہے۔
➍ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
كل صلاة لا يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ، فهي خداج ، فهي خداج قال: يا أبا هريرة، إني أحيانا أكون وراء الإمام قال : يا فارسي ، اقرأ بها فى نفسك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله عز وجل: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل قال العبد الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الفاتحة:1 قال الله: حمدني عبدي فإذا قال: الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الفاتحة:2 قال الله: أثنى على عبدي فإذا قال: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ الفاتحة:3 قال الله : مجدني عبدي أو قال: فوض إلى عبدي فإذا قال: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ الفاتحة:4 قال: هذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل
صحیح مسلم : 395
جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ راوی نے عرض کیا : بسا اوقات میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں، (تو کیا کروں؟)، فرمایا : فارسی! پست آواز میں پڑھ لیا کریں، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے میں تقسیم کر دیا ہے۔ میرا بندہ جو مانگے گا اسے عطا کروں گا، وہ کہتا ہے : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، بندہ کہتا ہے : الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ، الله فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری ثنا کی ۔ بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، اللہ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ یا کہتا ہے : میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کر دیا۔ راوی نے دونوں الفاظ بیان کیے ہیں، بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ، الله فرماتے ہیں : یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ میرا بندہ جو مانگے گا، وہ ملے گا۔
➎ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بينا جبريل عليه السلام قاعد عند النبى صلى الله عليه وسلم سمع صوتا نقيضا من فوقه فقال: هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم، فنزل منه ملك فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم فسلم وقال: أبشر بنورين أوتيتهما لم يوتهما نبي قبلك: فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة لم تقرأ بحرف منها إلا أعطيته.
صحیح مسلم : 806
جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آسمانوں سے چرچراہٹ سنائی دی، جبریل علیہ السلام کہنے لگے : یہ آسمان کا وہ دروازہ ہے، جو صرف آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا ہے، جو پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کیا : مبارک ہو، آپ کو دو نور عطا کیے گئے ہیں، جو آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے، وہ نور سورت فاتحہ اور سورت بقرہ کی دو آخری آیتیں ہیں۔ آپ ان میں سے ایک حرف بھی پڑھیں گے، تو وہ نور پالیں گے ۔
➏ سورت فاتحہ کو الصلوة (نماز) بھی کہا گیا ہے۔
صحیح مسلم : 395
➐ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا فى مسير لنا فنزلنا، فجاءت جارية، فقالت: إن سيد الحي سليم، وإن نفرنا غيب، فهل منكم راق؟ فقام معها رجل ما كنا نابنه برقية، فرقاه فبرأ، فأمر له بثلاثين شاء، وسقانا لبنا، فلما رجع قلنا له: أكنت تحسن رقية أو كنت ترقي؟ قال: لا ، ما رقيت إلا بأم الكتاب، قلنا: لا تحدثوا شيئا حتى نأتي أو نسأل النبى صلى الله عليه وسلم، فلما قدمنا المدينة ذكرناه للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: وما كان يدريه أنها رقية؟ اقسموا واضربوا لي بسهم.
صحيح البخاري : 5007 ، صحيح مسلم :2201
کسی سفر کے دوران ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک بچی آ کر کہنے لگی : اس قبیلے کے سردار کو بچھو وغیرہ نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے معالج غائب ہیں۔ کیا آپ میں کوئی دم کرنا جانتا ہے؟ ایک صحابی اس کے ساتھ چل دیے۔ ہم نے انھیں کبھی دم کرتے نہیں دیکھا تھا، لیکن انھوں نے دم کیا اور وہ سردار صحت یاب ہو گیا۔ سردار نے انھیں تیس بکریاں دیں اور ہمیں دودھ بھی پلایا، وہ بکریاں لے کر آگئے ، تو ہم نے پوچھا : کیا آپ جانتے ہیں کہ دم کیسے کیا جاتا ہے؟ کہنے لگے : نہیں، میں نے تو بس سورت فاتحہ پڑھی اور دم کر دیا۔ بکریوں کے بارے میں ہم نے طے کیا، کہ اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں۔ پھر ہم مدینہ منورہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے؟ بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لیں اور میرا حصہ بھی رکھیے گا۔
➑ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں پڑاؤ ڈالا ، ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : آپ کو قرآن کی افضل ترین سورت نہ بتاؤں؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ تلاوت فرمائی۔
السنن الصغير للبيهقي : 953، وسنده صحيح