اہلِ حدیث ہمیشہ سے ایک اصول کے پابند ہیں کہ کسی بھی واقعہ یا روایت کو قبول کرنے کے لئے سند کا صحیح اور معتبر ہونا لازمی شرط ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس نے حدیث کے علم کو تحریف اور جھوٹے قصوں سے محفوظ رکھا۔
اسی اصول کی روشنی میں امام المحدثین، حافظ الدنیا محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی قبر سے خوشبو آنے والا مشہور قصہ بھی پرکھا جاتا ہے۔ یہ واقعہ کتبِ تراجم میں ذکر ہوا ہے اور عوامی مجالس میں بہت بیان کیا جاتا ہے، لیکن جب ہم اس کی سند کو دیکھتے ہیں تو یہ ثابت نہیں ہوتا۔
اس مضمون میں ہم سب سے پہلے اس واقعے کی اصل سند اور اس پر ائمہ کی آراء پیش کریں گے، پھر "بریلوی حضرات کے اعتراضات” کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں گے اور ان کے دلائل کا مدلل جواب دیں گے۔ اس طرح قاری پر بالکل واضح ہو جائے گا کہ یہ قصہ ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہے اور اہلِ حدیث کا موقف کس قدر اصولی اور علمی ہے۔
واقعہ اور اس کی سند کا تجزیہ
امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر سے خوشبو آنے کا قصہ سب سے پہلے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب سیر أعلام النبلاء (12/467) میں نقل کیا۔ وہاں محمد بن أبی حاتم وراق نے ابو منصور غالب بن جبریل کے حوالہ سے یہ واقعہ ذکر کیا کہ جب امام بخاریؒ کو دفن کیا گیا تو قبر کی مٹی سے ایسی خوشبو آنے لگی جو مشک سے بھی زیادہ لطیف اور خوشبودار تھی، اور کئی دنوں تک یہ کیفیت باقی رہی۔ لوگ دور دور سے مٹی لینے آتے رہے یہاں تک کہ قبر کے گرد لکڑی کا جال لگانا پڑا تاکہ قبر محفوظ رہے۔
یہی قصہ دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے، مثلاً:
-
📕 تغليق التعليق (5/141)
-
📕 طبقات السبكي (2/233)
-
📕 مقدمة فتح الباري (ص 493)
-
📕 الوافي بالوفيات (2/208)
لیکن سند کے اعتبار سے یہ واقعہ ثابت نہیں:
-
محمد بن أبی حاتم وراق:
یہ راوی امام بخاری کے قریب رہے اور ان کے حالات بیان کرنے والے ہیں، لیکن محدثین میں سے کسی نے ان کی ثقاہت (عدالت و ضبط) کی صراحت نہیں کی۔ اہلِ جرح و تعدیل کی کتابوں میں ان پر اعتماد کرنے کی کوئی معتبر توثیق نہیں ملتی۔ اس لئے یہ راوی مجہول الحال ہیں۔ -
غالب بن جبریل:
اسی واقعے کا اصل شاہد یہی ہے، لیکن اس کی توثیق بھی کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں۔ امام خطیب بغدادی نے صرف اتنا کہا کہ وہ اہلِ علم میں شمار ہوتا تھا، مگر اس کے پاس کوئی مسند حدیث نہیں تھی۔ (📕 المتفق والمفترق)
یہ بات اس کی علمی حیثیت کو مشکوک بناتی ہے۔ -
سند کی انقطاع اور ابهام:
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ امام ذہبی سے لے کر محمد بن أبی حاتم تک کی سند ہی نامعلوم ہے۔ (📕 مقالات 3/580)
اصولی نکتہ:
اہلِ حدیث کا اصول ہے کہ خواہ کوئی واقعہ فضیلت کا ہو یا کسی بڑے امام کے بارے میں ہو، اگر سند صحیح نہ ہو تو وہ روایت مردود ہوگی۔ امام بخاریؒ کی شان و عظمت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر ان کے بارے میں اس قسم کے غیر ثابت قصے گھڑنا درست نہیں۔
بریلوی حضرات کے اعتراضات اور ان کے جوابات
اعتراض 1
بریلوی حضرات کہتے ہیں:
"محمد بن أبی حاتم وراق مجہول نہیں تھے، وہ امام بخاری کے ساتھ رہے، ان کی مناقب کا اکثر حصہ انہی سے مروی ہے، اور ائمہ نے ان کی روایات کو قبول کیا ہے۔ اس لئے ان پر مجہول ہونے کا اعتراض درست نہیں۔”
جواب:
یہ اعتراض اصولِ حدیث کے خلاف ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
➊ مجہول کی تعریف
محدثین کے نزدیک مجہول وہ ہے جس کی عدالت و ضبط معتبر ناقدین سے ثابت نہ ہو۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
إذ المجهول غير محتج به
یعنی مجہول راوی سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔
📕 (لسان الميزان)
➋ صرف ساتھ رہنے سے توثیق ثابت نہیں
یہ کہ محمد بن أبی حاتم امام بخاری کے ساتھ رہے، یہ ان کے مجہول ہونے کو ختم نہیں کرتا۔ محدثین نے ہمیشہ روایت کو قبول کرنے کے لئے سند میں ثقاہت کی تصریح طلب کی ہے، محض صحبت یا قربت کبھی دلیل نہیں بنی۔
➌ ائمہ کا نقل کرنا ≠ توثیق
ائمہ محدثین کسی بھی روایت کو سند کے ساتھ نقل کرکے اپنی ذمہ داری سے بری ہو جاتے تھے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے وضاحت کی:
بل أكثر المحدثين … إذا ساقوا الحديث بإسناده اعتقدوا أنهم برؤوا من عهدته
📕 (لسان الميزان)
یعنی محدثین جب سند ذکر کر دیتے تو سمجھتے کہ وہ ذمہ داری سے بری ہوگئے، چاہے آگے والا راوی مجہول ہی کیوں نہ ہو۔
➍ مناقب کا 80 فیصد انہی سے مروی ہونا
یہ بات درست ہے کہ امام بخاری کی مناقب کا بڑا حصہ وراق سے مروی ہے، لیکن چونکہ وہ مجہول الحال ہیں، اس لئے ان سے مروی اکثر روایات قابلِ احتجاج نہیں۔ امام بخاری کی عظمت کسی مجہول کی روایت کی محتاج نہیں۔
📍 نتیجہ:
محمد بن أبی حاتم وراق کی عدالت و ضبط پر کسی معتبر امام نے کلمۂ توثیق نہیں کہا، اس لئے وہ مجہول ہیں اور ان کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
اعتراض 2
بریلوی حضرات کہتے ہیں:
"حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی سند کے ساتھ امام محمد بن أبی حاتم وراق تک اتصال ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ راوی معتبر ہیں اور ان کی روایت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔”
جواب:
➊ ابن حجر کی سند میں مجہولین کی کثرت
تغليق التعليق على صحيح البخاري میں حافظ ابن حجرؒ نے جو سند ذکر کی ہے، اس میں پانچ سے زائد ایسے راوی ہیں جن کی عدالت و ضبط کسی معتبر امام سے ثابت نہیں۔
عربی عبارت:
إذ المجهول غير محتج به.
📕 (لسان الميزان 5/295)
ترجمہ:
"مجہول راوی سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔”
وضاحت:
حافظ ابن حجرؒ خود اصول بیان کر رہے ہیں کہ جس راوی کی حالت معلوم نہ ہو، اس کی روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔ پس صرف سند موجود ہونا توثیق کی دلیل نہیں۔
➋ امام بیہقی کی تصریح
عربی عبارت:
فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ قَبُولُ خَبَرِ الْمَجْهُولِينَ حَتَّى يُعْلَمَ مِنْ أَحْوَالِهِمْ مَا يُوجِبُ قَبُولَ أَخْبَارِهِمْ.
📕 (المدخل إلى السنن الكبرى 1/7)
ترجمہ:
"اس میں دلیل ہے کہ مجہول راوی کی خبر قبول نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اس کے حالات ایسے معلوم نہ ہو جائیں جو اس کی خبر کو قبول کرنے کا جواز فراہم کریں۔”
وضاحت:
بیہقیؒ کے اس اصول کے مطابق، جب تک کسی راوی کی عدالت و ضبط پر صریح شہادت نہ ہو، اس کی روایت مردود ہوگی۔ لہٰذا محمد بن أبی حاتم وراق کی سند میں مجہولین موجود ہوں تو وہ معتبر نہیں۔
اعتراض 3
بریلوی حضرات کہتے ہیں:
"امام ذہبیؒ نے بھی اپنی سند کے ساتھ محمد بن أبی حاتم وراق کا ذکر کیا ہے، لہٰذا وہ معتبر ہیں۔”
جواب:
➊ ذہبی کی سند میں مجہول رواۃ
سیر أعلام النبلاء میں امام ذہبیؒ کی جو سند ذکر ہوئی ہے، اس میں بھی کئی مجہول الحال راوی پائے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی معتبر امام نے ثقاہت کی تصریح نہیں کی۔
➋ مجہولین کی روایت غیر معتبر
ائمہ اصولیین نے صراحت کی ہے کہ مجہول یا مستور کی روایت حجت نہیں بنتی:
امام حسام الدین الاخسیکثی (م 644ھ، حنفی):
عربی عبارت:
فاسق کی طرح مستور کی حدیث بھی حجت نہیں جب تک اس کی عدالت ظاہر نہ ہوجائے۔
ترجمہ:
"جس طرح فاسق کی حدیث قابلِ حجت نہیں ہوتی، اسی طرح مستور (یعنی مجہول الحال) کی حدیث بھی حجت نہیں جب تک کہ اس کی عدالت ظاہر نہ ہو جائے۔”
وضاحت:
یعنی مجہول راوی کو تب تک معتبر نہیں مانا جا سکتا جب تک کہ اس کے ثقہ ہونے کی گواہی نہ مل جائے۔
امام ابن ہمام حنفی:
عربی عبارت:
المجهول الحال راوي مستور، وروايته عند أبي حنيفة غير مقبولة.
ترجمہ:
"مجہول الحال راوی مستور شمار ہوتا ہے اور اس کی روایت امام ابو حنیفہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔”
وضاحت:
یہاں صراحت ہے کہ فقہ حنفی کے اصول کے مطابق بھی مجہول کی روایت ناقابلِ حجت ہے۔
📍 حاصلِ کلام:
نہ حافظ ابن حجرؒ کی سند اور نہ امام ذہبیؒ کی سند محمد بن أبی حاتم وراق کے مجہول ہونے کو ختم کر سکتی ہے، کیونکہ دونوں میں مجہول رواۃ موجود ہیں۔ اور اصولی طور پر مجہول کی روایت حجت نہیں۔
اعتراض 4
بریلوی حضرات کہتے ہیں:
"غالب بن جبریل اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے، امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ وہ اہلِ علم لوگوں میں سے تھے۔ اس لئے امام بخاریؒ کی قبر سے خوشبو کے واقعہ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔”
جواب:
➊ خطیب بغدادی کی تصریح
عربی عبارت:
لا أعلم له حديثا مسندا، يقال إنه كان من أهل العلم.
📕 (المتفق والمفترق، خطیب بغدادی)
ترجمہ:
"میں غالب بن جبریل کی کوئی مسند روایت نہیں جانتا، البتہ کہا جاتا ہے کہ وہ اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔”
وضاحت:
یہ بات صاف ہے کہ وہ شخص اہلِ علم میں شمار تو ہوتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی مسند روایت نہیں تھی۔ یعنی وہ محدث یا ثقہ راوی نہیں تھا، بلکہ محض ایک عام اہلِ علم آدمی تھا۔ ایسے شخص سے مروی واقعہ کو حجت نہیں بنایا جا سکتا۔
➋ امام مالک کا اصول
عربی عبارت:
لَا يُؤْخَذُ الْعِلْمُ مِنْ أَرْبَعَةٍ … وَلَا مِنْ شَيْخٍ لَهُ فَضْلٌ وَصَلَاحٌ وَعِبَادَةٌ إِذَا كَانَ لَا يَعْرِفُ مَا يُحَدِّثُ.
📕 (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 1/59)
ترجمہ:
"چار قسم کے لوگوں سے علم نہیں لینا چاہئے … ان میں سے ایک وہ نیک اور صالح آدمی ہے جو عبادت گزار ہو لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ کیا روایت کر رہا ہے۔”
وضاحت:
غالب بن جبریل کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ وہ چاہے اہلِ علم میں گنے جاتے ہوں لیکن جب ان کے پاس روایت و حدیث کا علم ہی نہیں، تو ان سے مروی واقعہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
➌ مجہولین کے بارے میں محدثین کا فیصلہ
-
حافظ ابن حجرؒ:
إذ المجهول غير محتج به
"مجہول سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔”
📕 (لسان الميزان)
-
امام بیہقیؒ:
لا يجوز قبول خبر المجهولين حتى يعلم من أحوالهم ما يوجب قبول أخبارهم.
"مجہولین کی خبر قبول نہیں کی جا سکتی جب تک ان کی عدالت ثابت نہ ہو۔”
📕 (المدخل إلى السنن الكبرى)
-
امام حسام الدین الاخسیکثی (حنفی):
"فاسق کی طرح مستور کی حدیث بھی حجت نہیں جب تک اس کی عدالت ظاہر نہ ہو جائے۔”
-
امام ابن ہمام (حنفی):
"مجہول الحال راوی مستور ہے اور اس کی روایت امام ابو حنیفہ کے نزدیک غیر مقبول ہے۔”
خلاصہ و نتیجہ
-
محمد بن أبی حاتم وراق کی توثیق کسی معتبر امام سے ثابت نہیں، لہٰذا وہ مجہول ہیں۔
-
غالب بن جبریل بھی سنداً معتبر نہیں، اس کے بارے میں صرف اتنا کہا گیا کہ وہ اہلِ علم میں شمار ہوتا تھا لیکن کوئی مسند روایت اس کے پاس نہیں۔
-
مجہول یا غیر معتبر شخص کی خبر کو دین میں حجت نہیں بنایا جا سکتا، چاہے وہ کتنی ہی مشہور کیوں نہ ہو۔
-
امام بخاریؒ کی عظمت و شان اس قسم کے غیر ثابت قصے کی محتاج نہیں۔ ان کی سب سے بڑی کرامت ان کی کتاب الجامع الصحیح ہے جسے قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب قرار دیا گیا۔
🔴 حتمی نتیجہ:
امام بخاریؒ کی قبر سے خوشبو آنے والا قصہ سنداً ثابت نہیں۔ یہ روایت ناقابلِ حجت ہے کیونکہ اس کے دونوں بنیادی راوی مجہول ہیں۔ لہٰذا اہلِ حدیث اصولوں کے مطابق یہ واقعہ جھوٹا یا کم از کم غیر معتبر ہے، اور دین میں اس سے کوئی استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
اہم حوالوں کے سکین