وسیلے کی جائز و ناجائز اقسام کے بارے میں تمام تفصیل ہم نے ان مضامین میں بیان کر دی ہے۔ اب آتے ہیں وسیلے کے حق میں پیش کردہ عقلی دلائل کی طرف۔
وسیلے کے عقلی دلائل کا رد
پہلی عقلی دلیل: سیڑھی اور چھت والی مثال
کہا جاتا ہے کہ جیسے چھت تک پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے اللہ تک پہنچنے کے لئے اولیاء کا وسیلہ چاہیے۔
جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کے لئے مخلوق کی مثالیں دینا منع ہے، کیونکہ اللہ کی کوئی مثل نہیں:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
ترجمہ: "اس جیسا کوئی بھی نہیں، اور وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔”
(الشورى: 11)
اللہ تو عرش پر ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے:
﴿الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾
ترجمہ: "رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔”
(طٰہ: 5)
تاہم علم و قدرت کے اعتبار سے وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے:
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾
ترجمہ: "اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔”
(ق: 16)
چونکہ اللہ علم و قدرت کے اعتبار سے ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے اس لئے اس تک پہنچنے کے لئے کسی مخلوق کے شخصی و ذاتی وسیلے کی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ سیڑھی والی مثال میں باور کروایا جاتا ہے۔
مزید برآں اللہ نے براہ راست خود کو پکارنے کا حکم دیا ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
ترجمہ: "اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔”
(غافر: 60)
اور قرآن و حدیث میں جتنی بھی دعائیں آئی ہیں وہ سب براہ راست اللہ سے ہیں، بغیر کسی تیسرے فریق کے شخصی وسیلے کے۔ اس لئے سیڑھی اور چھت والی مثال بالکل باطل ہے۔
دوسری عقلی دلیل: بادشاہ اور وزیر والی مثال
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جیسے بادشاہ تک پہنچنے کے لئے پہلے وزیروں سے ملنا پڑتا ہے، ویسے اللہ تک رسائی کے لئے اولیاء کی ضرورت ہے۔
جواب:
بادشاہ تک رسائی اس لئے مشکل ہے کہ وہ کمزور اور محتاج انسان ہے، ہر ایک کو براہ راست نہیں ملتا، اس لئے وزیروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن اللہ کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اللہ تو دل کی پکار بھی براہ راست سنتا ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾
ترجمہ: "اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (کہہ دیجئے) کہ میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔”
(البقرة: 186)
لہٰذا اللہ تک پہنچنے کے لئے کسی وزیر، دربان یا ولی کی ضرورت نہیں۔
تیسری عقلی دلیل: پولیس اور ماں والی مثال
دعوتِ اسلامی کے سربراہ الیاس قادری صاحب کی ایک وائرل ویڈیو ہے جس میں وہ کہتے ہیں: اگر چوری ہو جائے تو ہم پولیس سے مدد لیتے ہیں، کھانے کے لئے ماں سے مدد لیتے ہیں، تو کیا یہ بھی شرک ہے؟ مدد تو صرف اللہ سے مانگنی چاہیے۔
جواب:
اس بچگانہ دلیل کا جواب بہت آسان ہے۔ کیا ہم مرے ہوئے پولیس والوں سے مدد لیتے ہیں؟ یا ان پولیس والوں سے جو موقع پر موجود ہی نہیں؟ کیا ہم مری ہوئی ماں سے روٹی مانگتے ہیں؟ یا زندہ اور موجود ماں سے جو واقعی مدد کر سکتی ہے؟ یہ سب ماتحت الاسباب مدد ہے، جس کے جائز ہونے پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾
ترجمہ: "نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔”
(المائدہ: 2)
لیکن اصل مسئلہ مافوق الاسباب (اسباب سے ہٹ کر) مدد مانگنے کا ہے، یعنی غیبی طور پر کسی سے فریاد کرنا جو مدد پر قادر ہی نہ ہو۔ مثلاً عبدالقادر جیلانی کو ’’غوث الاعظم‘‘ (سب سے بڑا فریاد رس) مان کر "یا غوث الاعظم مدد” کے نعرے لگانا، یہ صریح شرک ہے، بالکل ویسا ہی جیسا ہندو اپنے مندروں میں کرتے ہیں۔
خلاصہ
دعا خود عبادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الدعاء هو العبادة» ثم قرأ: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
ترجمہ: "دعا ہی عبادت ہے، پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔”
(مسند أحمد 18542، ترمذی 2969: حسن صحیح)
چونکہ دعا عبادت ہے، اس لئے عبادت صرف اللہ کے لئے خاص ہے۔ کسی مخلوق کے شخصی وسیلے کو دعا میں شامل کرنا عبادت میں شریک ٹھہرانے کی ایک صورت ہے، اور براہ راست غیراللہ سے مانگنا صریح اور واضح شرک ہے۔