حکام کی اطاعت اللہ کی نافرمانی کے علاوہ واجب ہے
لغوی وضاحت: امامت کا معنی ہے خلافت و پیشوائی ۔ یہ باب اَمّ (نصر ) سے مصدر بھی ہے جس کا معنی ہے ، امام بننا ، امام سے مراد خلیفہ ، امیرِ لشکر اور مصلح و منتظم ہے ۔
[المنجد: ص / 44 ، القاموس المحيط: ص / 971]
شرعی تعریف: ایسی ریاستِ عامہ جو علومِ دینیہ کے احیاء کے ذریعے ، ارکان اسلام کے قیام ، جہاد کے دوام ، اس کے لوازمات مثلا لشکروں کی ترتیب اور مال غنیمت و مال فیئی میں سے انہیں عطائیگی ، منصبِ قضاء کے قیام ، حدود کے نفاذ ، مظالم کے خاتمے ، امر بالمعروف اور نهي عن المنكر کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے اقامتِ دین (کا فریضہ ادا کرنے ) کے درپے ہو ۔
[إكليل الكرامة فى تبيان مقاصد الإمامة لصديق حسن خان: ص / 23]
امامت کی مشروعیت:
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
الائمة من قريش
”امام و حکمران قریش سے ہوں گے ۔“
[أحمد: 11859]
➋ ایک اور حدیث میں ہے کہ :
عليكم بسنتى و سنة الخلفاء الراشدين المهديين
”تم پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت اپنانا لازم ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3851 ، كتاب السنة: باب فى لزوم السنة ، ابو داود: 4607 ، ابن ماجة: 42 ، ترمذي: 2600]
➌ ایک حدیث میں ہے کہ :
الخلافة بعدى ثلاثون سنة ثم تكون ملكا
”میرے بعد خلافت تیس سال تک رہے گی پھر بادشاہت آ جائے گی ۔“
[ابن حبان: 1943 ، 392/15 ، كتاب إخباره عن مناقب الصحابة]
(شوکانیؒ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے تمام کاموں پر امام کے قیام کو ترجیح دی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی گئی ان کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ ۔ پھر مسلمانوں میں یہ طریقہ بالاستمرار جاری رہا ۔ ساری اُمت کا معاملہ مجتمع تھا حتی کہ اسلام کا پھیلاؤ (فتوحات کی کثرت ) علاقوں کی توسیع کی وجہ سے ہر علاقے کا الگ حکمران منتخب ہونے لگا پھر جب بھی کوئی حکمران فوت ہوتا تو فی الفور نئے حکمران کا چناؤ عمل میں آتا ۔ اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہ کرتا بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر آج تک اجماع امت سے ثابت ہے ۔
[السيل الجرار: 504/4]
➍ صحابہ و تابعین کا امامت و خلافت کے وجوب پر اجماع ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 6147/8]
➎ انسانی اجتماعی معاشرے میں باہمی تنازعہ و تزاحم اور اختلاف پیدا ہو جانا ایک یقینی امر ہے جس کا سبب ذاتی حرص و طمع اور خواہش نفس ہے ۔ اس باہمی اختلاف و انتشار کا نتیجہ لڑائی جھگڑے ، شور و غوغا اور ہلاکت نفس کی صورت میں برآمد ہوتا ہے (ایسا اس وقت ہو گا ) جب حقوق منظم نہیں ہوں گے ، واجبات معین نہیں ہوں گے ، نظام مقرر نہیں ہو گا اور یہ (صرف اور صرف ) ایک سلطان (خلیفہ و امیر کے قیام ) کے ساتھ ہی مکمل ہو سکتا ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 6149/8]
(ماوردیؒ ) امامت کی فرضیت فرض کفائی ہے جب اس کا اہل شخص اسے قائم کر دے گا تو باقی تمام سے فرض ساقط ہو جائے گا ۔
[الأحكام السلطانية: ص / 3]
(اہل السنه ، مرجیه ، شیعه ) امامت و خلافت (کا قیام ) واجب ہے ۔
[أصول الدين للبغدادي: ص / 271 ، الأحكام السلطانية للماوردى: ص / 3 ، حجة الله البالغة: 110/2]
(ابن حزمؒ ) تمام اہل السنہ ، تمام مرجیہ ، تمام شیعہ اور تمام خوارج خلافت و ریاست (کے قیام ) کے وجوب پر متفق ہیں ۔ اور اُمت پر ایسے عادل حکمران کی اطاعت واجب ہے جو ان میں احکاماتِ الٰہی کا نفاذ کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ احکام شریعت کے ساتھ ان کی سیاست اور نظم و نسق چلاتا ہو ۔
[الفصل فى الملل والنحل: 87/4 ، المحلى: 438/9 ، مراتب الإجماع: ص / 124]
(ابن تیمیہؒ ) اس بات کو جاننا واجب ہے کہ لوگوں کے معاملات کی ولایت (حکومت ) واجباتِ دین کے سب سے عظیم (کاموں ) میں سے ہے بلکہ دین کا قیام صرف اس کے ذریعے ہو سکتا ہے ۔ بنی آدم کے (تمام ) مصالح و حاجات صرف ان کے باہمی اجتماع کے ساتھ ہی ممکن ہیں اور کسی بھی جگہ جمع ہونے کے لیے ایک امیر کا ہونا ناگزیر ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سفر میں تین آدمی ہو تو ایک کو امیر بنا لو ۔“
[السياسة الشرعية: ص / 161]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ [النساء: 59]
”اے ایمان والو ! اللہ ، رسول اور اپنے میں سے امر والوں کی اطاعت کرو ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني
”جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔“
[بخارى: 2957 ، كتاب الجهاد والسير: باب السمع والطاعة للإمام ، مسلم: 1835 ، نسائي: 154/7 ، ابن ماجة: 2859 ، ابن حبان: 4556 ، بيهقى: 155/8 ، أبو عوانة: 109/2 ، احمد: 244/2]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسمعوا وأطيعوا ……..
”سنو اور اطاعت کرو اگرچه تم پر حبشی غلام ہی امیر بنا دیا جائے گویا کہ اس کا سر منقے جیسا ہو ۔“
[بخارى: 7142 ، كتاب الأحكام: باب السمع والطاعة للإمام]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
على المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب أو كره إلا أن يؤمر بمعصية فإن أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة
”مسلمان آدی پر سنتا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ وہ اسے پسند کرتا ہو یا ناپسند کرتا ہو الا کہ اسے کسی نافرمانی کا حکم دیا جائے پس اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو کوئی سننا اور اطاعت کرنا نہیں ۔“
[بخاري: 7144 ، كتاب الأحكام: باب السمع والطاعة للامام]
➎ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا طاعة فى المعصية إنما الطاعة فى المعروف
”نافرمانی میں (امیر کی ) اطاعت نہیں کی جائے گی بلکہ صرف نیکی کے کاموں میں ہی اطاعت کی جائے گی ۔“
[بخاري: 7257 ، كتاب أخبار الأحاد: باب ما جآء فى إجازة خبر الواحد ، مسلم: 1840 ، نسائي: 109/7 ، ابو داود: 2625 ، ابن حبان: 4567 ، احمد: 82/1]