جزیرۃ العرب سے مشرکین و اہل کتاب کی بے دخلی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مشركين اور ذميوں كو جزيرة العرب ميں رهنے كي اجازت نهيں دي جائے گي
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت یہ وصیت کی تھی:
أخرجوا المشركين من جزيرة العرب
”مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دو ۔“
[بخاري: 3053 ، كتاب الجهاد والسير: باب هل يستشفع إلى أهل الذمة ومعاملتهم ، مسلم: 1637]
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لأخر جن اليهود والنصاري من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلما
”میں یہود و نصاری کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال کر دم لوں گا حتی کہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا ۔“
[مسلم: 1767 ، كتاب الجهاد والسير: باب إخراج اليهود والنصارى من جزيرة العرب ، احمد: 32/1 ، ترمذي: 1606 ، بيهقي: 207/9]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری کلمات یہ تھے:
لا يترك بجزيرة العرب بنان
”جزیرۃ العرب میں دو دین نہ چھوڑے جائیں ۔“
[احمد: 275/6]
➍ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلمات یہ تھے:
أخرجوا يهود هل الحجاز وأهل تجران من جزيرة العرب
”جزیره العرب سے اہل حجاز اور اہل نجران کے یہودیوں کو نکال دو ۔“
[احمد: 195 – 196 ، حميدي: 85 ، بيهقي: 28/9]
➎ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کی سرزمین سے یہود و نصاری کو جلا وطن کر دیا (اور اسی طرح خیبر کے یہودیوں کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تیماء اور اریحاء مقام کی طرف جلا وطن کر دیا ۔
[بخاري: 2338 ، كتاب الحرث والمزارعة: باب إذا قال رب الأرض أترك ما أترك الله]

جزيرة العرب:

بحر ہند ، بحر شام ، پھر دجلہ و فرات نے جتنے علاقے پر احاطہ کیا ہوا ہے یا طول کے لحاظ سے عدن آبین کے درمیان سے لے کر اطراف شام تک کے علاقہ اور عرض کے اعتبار سے جدہ سے لے کر آبادی عراق کے اطراف تک (کا علاقہ جزیرۃ العرب کہلاتا ہے ) ۔
[القاموس المحيط: جزر]
اسے جزیرہ اس لیے کہا گیا ہے ۔ کیونکہ سمندروں نے اسے گھیرا ہوا ہے (یعنی بحر ہند ، بحر فارس ، بحراحمر ) اور عرب کی طرف نسبت اس وجہ سے ہے کیونکہ قبل از اسلام یہ علاقہ انہی کا مسکن تھا ۔
[نيل الأوطار: 133/5]

حجاز:

حجاز سے مراد مکہ ، مدینہ ، طائف اور اس کے اضلاع وغیرہ ہیں کیونکہ یہ نجد اور تہامہ کے درمیان یا نجد اور سراة کے درمیان حائل ہے یا اس وجہ سے کہ یہ پانچ حرار سے گھرا ہوا ہے ۔ یعنی حرة بن سلیم ، حرة واقم ، حرة لیلٰی ، حرہ شوران اور حرہ نار ۔
[القاموس المحيط: حجز]
(جمہور ) مشرکین کو جس جزیرۃ العرب سے روکا گیا ہے اس سے مراد خاص حجاز ہے ۔
(احناف ) مسجد حرام کے علاوہ مشرکین کو ہر جگہ داخل ہونے کی اجازت ہے ۔
(مالکؒ ) جزیرۃ العرب میں کوئی کافر رہائش اختیار نہیں کر سکتا البتہ تجارت کے سلسلے میں حرم میں داخل ہو سکتا ہے ۔
(شافعیؒ ) تمام مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا واجب ہے لیکن جزیرۃ العرب سے مراد صرف حجاز ہے یعنی مکہ ، مدینہ ، یمامہ اور ان کے مضافات وغیرہ ۔ اور یمن جزیرۃ العرب میں شامل نہیں ہے ۔ اور مشرکین حرم میں حاکم کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے ۔
[تحفة الأحوذي: 222/5 ، شرح مسلم للنووى: 105/6 ، نيل الأوطار: 134/5 ، سبل السلام: 179/4 ، فتح البارى: 284/6 ، الاستذكارلا بن عبدالبر: 62/26]
(راجح ) جزیرۃ العرب کا لفظ جن علاقوں پر بولا جاتا ہے ان تمام سے مشرکین کو نکال دیا جائے گا اور ان میں یمن بھی شامل ہے ۔ جس حدیث میں (صرف ) حجاز سے مشرکین کو نکالنے کا حکم ہے تو (یاد رہے کہ ) حجاز بھی جزیرۃ العرب کا ہی ایک حصہ ہے اور کسی چیز کے بعض پر حکم اس کے کل پر حکم کے مخالف نہیں ہے جیسا کہ اصول میں یہ بات ثابت ہے کہ ”عام کے بعض افراد پر حکم عام کو خاص نہیں کرتا ۔“
[سبل السلام: 1791/4 ، الروضة الندية: 766/2 ، نيل الأوطار: 135/5]
❀ مجوسی بھی (جزیرۃ العرب سے نکالنے کے حکم میں ) اہل کتاب کی طرح ہی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ حدیث ہے:
لا يجتمع دينان فى أرض العرب
”ارضِ عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے ۔“
[سبل السلام: 1793/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے