صلح کی مدت شرعی حدود و اقوال
تحریر: عمران ایوب لاہوری

صلح کی مدت
صلح کی مدت کے متعلق اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صلح معین مدت کے لیے ہو غیر معین مدت کے لیے نہ ہو کیونکہ ہمیشگی کی صلح کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فریضہ قتال کو چھوڑ دینا ۔ البتہ اہل علم نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ صلح کی مدت کتنی ہونی چاہیے ۔
(شافعیہ ) جب مسلمان قوت میں ہوں تو چار ماہ سے ایک سال کی مدت تک اور جب کمزور ہوں تو دس سال تک صلح کا معاہدہ کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے صلح حدیبیہ میں اس پر مصالحت کی ۔
(حنابلہ ) حاکم اجتہاد کے بعد اگر دس سال سے زیادہ مدت پر صلح کرنے میں بہتری سمجھے تو درست ہے ۔
(احناف ، مالکیہ ) صلح کے لیے کوئی معین مدت نہیں ہے بلکہ امام کی رائے پر موقوف ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 441/6 ، كشاف القناع: 104/3 ، آثار الحرب: ص / 675]
(راجح ) اللہ تعالیٰ نے کفار سے قتال فرض قرار دیا ہے اس لیے جزیہ یا اس کی مثل کسی بھی چیز کے بغیر ان سے صلح کر لینا درست نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کے جواز پر شاہد ہے اس لیے اس کی مدت بھی وہی ہو گی جو نص سے ثابت ہے اس کے بعد اصل کی طرف رجوع کیا جائے گا یعنی کفار سے قتال واجب ہو جائے گا ۔ جمہور اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 761/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے