وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه رواه الترمذي وقال: حسن
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے اس کا اس چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اس کے مقصد کی نہیں۔ “ (اسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حسن ہے )
تخریج : حسن [ترمذي 2317] ترمذی نے اسے حسن کہا ہے یہ حدیث علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مرسل بھی آئی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا حدیث صحیح [مشكوة حديث 4839] اور دیکھئے [تحفته الاشراف 381/9، 313/11]
مفردات :
عَنَاهُ الْاَمْرُ يَعْنُوْهُ وَيَعْنِيْهِ اَهَمَّهُ جب کوئی کام آدمی کو فکر میں ڈالے، وہ اس کا خاص اہتمام کرے اور وہ اس کا مطلوب اور مقصد بن جائے۔
فوائد :
➊ یہ حدیث جوامع الکلم سے ہے۔ الفاظ کم ہیں، مگر معانی بہت وسیع ہیں۔
➋ اس حدیث میں بےمقصد اور بےفائدہ اقوال کا ترک بھی شامل ہے اور بے فائدہ اعمال و عقائد کا ترک بھی۔ اگر آدمی ہر بات اور ہر کام سے پہلے یہ سوچے کہ مجھے اس کام کا دنیا یا آخرت میں کیا فائدہ ہے تو بے شمار باتیں اور بے شمار کام خود بخود اس سے چھوٹ جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من كان يومن بالله واليوم الاخر فليقل خيرا او ليصمت [صحيح بخاري، باب حفظ اللسان 6475، مسلم]
”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ “
زیر بحث حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ باتیں ہی نہیں بے فائدہ کام بھی چھوڑے گا تو یہ اس کے اسلام کی خوبصورتی کا ایک حصہ ہے جس کے بغیر اس کا اسلام خوبصورت نہیں ہو سکتا۔
➌ جب بےمقصد باتیں، بےمقصد کام اور بےمقصد نظریات ترک کر دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ اقوال عقائد اور اعمال تو بدرجہ اولیٰ ترک ہو جائیں گے جو حرام یا مکروہ یا مشتبہ ہیں۔
➍ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان ہر وقت اسی طرح رہے گویا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اگروہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس دھیان سے اس میں اللہ تعالیٰ سے حیاء پیدا ہو گی اور وہ کوئی لا یعنی، بے مقصد اور بے فائدہ کام نہیں کرے گا۔ اسی مرتبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان قرار دیا اور اس حدیث میں اسے آدمی کے اسلام کا حسن قرار دیا۔
➎ بعض فقہاء مختلف احکام میں ایسے فرضی سوالات بنا بنا کر ان کے جوابات کا تکلف کرتے ہیں جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں اور اسے علم کا کمال سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بے فائدہ اور بے مقصد کام ہے اور سراسر تکلف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [38-ص:86]
”کہہ دے میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا اور میں تکلف کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ “
اس تکلف کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قوم کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سے قرآن کا زیادہ قاری ہے اگر وہ قرأت میں برابر ہوں تو جو ان میں سے سنت کا زیادہ علم رکھتا ہے اور اگر وہ سنت کے علم میں برابر ہوں تو جس کی ہجرت قدیم ہے اور اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو جس کی عمر زیادہ ہے۔ [مسلم، عن ابي مسعود انصاري 673 ]
اگر اس سے زیادہ ضرورت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرما دیتے اب بعض حضرات نے اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے مزید صورتیں پیدا کیں اور ان کا جواب اپنے پاس سے دیا جبکہ انہیں شریعت بنانے کا حق اللہ تعالیٰ نے ہرگز نہیں دیا تھا۔
➏ اس حدیث کی رو سے بے فائدہ دیکھنا، سننا، پڑھنا، بولنا، کھیلنا، سونا اور دوسرے تمام بے فائدہ کام آدمی کے اسلام کی خوبی کے خلاف ہیں۔ مثلا ناول، افسانے، گیت، اخبارات کا بیشتر حصہ بے فائدہ کتابیں، اکثر کھیل، تاش وغیرہ، ضرورت سے زیادہ وقت سونے میں صرف کر دینا بے مقصد اور لایعنی کام ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔