حاکم کے لیے ایک خصوصی حصہ بھی ہے لیکن اس کا عام حصہ لشکر کے عام آدمی کے برابر ہے
➊ حضرت یزید بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم مربد (ایک محلے کا نام ) میں تھے کہ ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر ہمارے پاس آیا جب ہم نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ یہ (مکتوب ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنوز ہیر بن أقیش کی طرف ہے:
إنكم إن شهدتم أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وأديتم الخمس من المغنم وسهم النبى صلى الله عليه وسلم وسهم الصفى فأنتم آمنون بأمان الله ورسوله
”اگر تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرتے ہو ، زکاۃ ادا کرتے ہو اور مال غنیمت سے خمس اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور ایک مخصوص حصہ ادا کرتے ہو تو پھر تم اللہ اور اس کے رسول کی امان کے ساتھ ایمان رکھنے والے ہو ، ہم نے پوچھا یہ تمہیں کس نے لکھ کر دیا ہے تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2592 ، كتاب الخراج والإمارة: باب ما جآء فى سهم الصفى ، ابو داود: 299 ، نسائي: 134/7 ، احمد: 77/5]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كانت صفية من الصفى
”حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا خاص حصے میں سے تھیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2592 أيضا ، ابو داود: 2994 ، ابن حبان: 4822 ، حاكم: 128/2 ، بيهقي: 304/6]
➌ ایک روایت میں ہے کہ جب خیبر کی قیدی عورتیں جمع کی گئیں تو دحیہ کلبی (صحابی رسول ) تشریف لائے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! مجھے قیدی عورتوں میں سے کوئی لونڈی عطا فرما دیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ کوئی ایک لونڈی لے لو ۔ “ تو انہوں نے صفیہ بنت حیی کو چن لیا ۔ اس پر ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا اے اللہ کے نبی! آپ نے دحیہ کو بنو نضیر اور بنو قریظہ کی سردار صفیہ بنت حیی دے دی ہے؟ حالانکہ وہ تو آپ کے علاوہ کسی کے لیے درست نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے بلاؤ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (صفیہ ) کی طرف دیکھا تو دحیہ سے کہا کہ جاؤ قیدیوں میں سے اس کے علاوہ کوئی اور لونڈی لے لو ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان سے شادی کر لی ۔
[بخاري: 371 ، كتاب الصلاة: باب ما يذكر فى الفخذ ، مسلم: 1365 ، ابو داود: 2998 ، نسائي: 131/6 ، احمد: 101/3 – 186]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ :
أنه اشتراها منه بسبعة أروس
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دحیہ سے سات غلاموں کے بدلے خریدا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2590 ، كتاب الخراج والفئى: باب ما جآء فى سهم الصفى ، أبو داود: 2997 ، ابن ماجه: 2272]
(شوکانیؒ ) یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کے لیے غنیمت سے کوئی چیز خاص کر لینا کہ جس میں کوئی اور شریک نہ ہو جائز ہے ۔
[نيل الأوطار: 37/5 – 38]