نیکی کے عام دلائل سے بدعتِ حسنہ کا استدلال
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

بعض لوگ بدعت کو جائز قرار دینے کے لئے قرآن و حدیث کی عام نصوص پیش کرتے ہیں، جیسے:

  • ﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الحج: 77)

  • ﴿وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ﴾ (آل عمران: 133)

  • «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» (صحیح بخاری، 1)

اور کہتے ہیں کہ چونکہ یہ آیات اور احادیث ہر قسم کے نیک عمل پر ابھارتی ہیں، اس لئے نئی بدعات بھی اسی کے تحت نیکی شمار ہوں گی۔

اس مضمون میں اس شبہے کا جواب دیا جائے گا۔

بدعت کے جواز میں بریلوی شبہ

“چونکہ قرآن و حدیث میں نیکی کرنے، خیر کے کام بڑھانے اور نیت پر اجر ملنے کا ذکر ہے، اس لئے ہم دین میں نئی نئی عبادات ایجاد کر سکتے ہیں، اور یہ بدعتِ حسنہ کے حکم میں ہوں گی۔”

اس بریلوی شبہ کا جواب

➊ نصوصِ عامہ (عام دلائل) کو سلف کے فہم سے سمجھنا ضروری ہے

امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:

عربی:
«لو كان دليلاً عليه؛ لم يعزب عن فهم الصحابة والتابعين ثم يفهمه هؤلاء… فما عمل به المتأخرون من هذا القسم مخالف لإجماع الأولين، وكل من خالف الإجماع فهو مخطئ.»
ترجمہ: “اگر یہ (عام دلیل) بدعت پر دلیل ہوتی تو صحابہ اور تابعین کے فہم سے مخفی نہ رہتی۔ بعد والوں کا ایسا عمل دراصل پہلے والوں کے اجماع کے خلاف ہے، اور اجماع کے خلاف کرنے والا خطاکار ہے۔”
حوالہ: الشاطبي، الاعتصام (2/655)

📌 مطلب یہ کہ اگر قرآن و سنت کی عام نصوص سے بدعت کا جواز نکلتا تو سب سے پہلے صحابہ اسے سمجھتے اور کرتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

➋ صحابہ کا طرزِ عمل

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے سامنے ایک شخص نے عطس (چھینک) کے بعد کہا: الحمد لله والصلاة على رسول الله، تو انہوں نے فوراً ٹوکا:

عربی:
«وأنا أقول: الحمد لله، والصلاة على رسول الله، وليس هكذا علمنا رسول الله ﷺ.»
ترجمہ: “میں بھی کہتا ہوں الحمد لله والصلاة على رسول الله، لیکن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسے نہیں سکھایا۔”
حوالہ: الترمذي (حديث: 2738)

📌 یہاں صحابیؓ نے عام آیت ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 56) کے باوجود نیا طریقہ مسترد کیا، کیونکہ یہ نبی ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں تھا۔

➌ نبی ﷺ کا واضح اصول

نبی ﷺ نے فرمایا:

عربی:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
ترجمہ: “جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا طریقہ نہ ہو تو وہ مردود ہے۔”
حوالہ: صحیح مسلم (حديث: 1718)

📌 اس سے واضح ہوا کہ نیکی کی نیت سے بھی اگر کوئی ایسا عمل کیا جائے جو دین میں شامل نہیں تو وہ مردود ہے۔

➍ بدعت کو نیکی سمجھنے کا نقصان

اگر عام نصوص کی بنیاد پر ہر نئی چیز کو نیکی مان لیا جائے تو پھر ہر شخص اپنی پسند کی عبادت ایجاد کرے گا۔ لیکن دین کی اصل بنیاد یہ ہے کہ عبادات صرف وہی ہوں گی جو نبی ﷺ نے سکھائی ہیں۔

امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا:

«اصبر نفسك على السنة، وقف حيث وقف القوم، وقل بما قالوا، وكف عما كفوا عنه، واسلك سبيل سلفك الصالح، فإنه يسعك ما وسعهم.»
ترجمہ: “سنت پر اپنے آپ کو روکے رکھو، جہاں صحابہ رکے وہاں رک جاؤ، جو انہوں نے کہا وہی کہو، جس سے رکے وہی چھوڑ دو، اپنے سلف صالحین کے راستے پر چلو، تمہارے لئے وہی کافی ہے جو ان کے لئے کافی تھا۔”
حوالہ: ابن بطہ، الإبانة الكبرى (1/305)

خلاصہ

  • قرآن و حدیث کی عام نصوص (جیسے “نیکی کرو”، “خیر میں سبقت لو”) سے نئی عبادات کا جواز نہیں نکلتا۔

  • اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرامؓ سب سے پہلے نئی بدعات ایجاد کرتے، لیکن انہوں نے ہمیشہ بدعت سے منع کیا۔

  • نبی ﷺ نے واضح فرما دیا کہ جو عمل دین کے طریقے پر نہ ہو وہ مردود ہے۔

  • عبادات صرف وہی معتبر ہیں جو نبی ﷺ اور صحابہ سے ثابت ہیں، باقی سب بدعت اور گمراہی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے