جنگ میں مثلہ، آگ سے عذاب اور میدانِ جنگ سے فرار کی ممانعت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اسی طرح مثلہ کرنا آگ میں جلانا اور میدان جنگ سے فرار بھی حرام ہے الا کہ اپنے کسی دستے کی پناہ میں جا رہا ہو
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل روایت میں فرمایا:
ولا تمثلوا
”اور تم (دوران جنگ ) مثلہ مت کرو ۔“
[مسلم: 1731 ، كتاب الجهاد والسير: باب تامير الإمام الأمراء ، ترمذى: 1617]
(شوکانیؒ ) اس حدیث میں مثلہ کی حرمت پر دلیل ہے ۔
[نيل الأوطار: 3/5]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دينا ليكن
إن النار لا يعذب بها إلا الله
”آگ کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی عذاب دے سکتا ہے ۔“
اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کر دینا (آگ نہ لگانا ) ۔
[بخارى: 3016 ، كتاب الجهاد والسير: باب لا يعذب بعذاب الله ، ابو داود: 2674 ، ترمذي: 1571 ، دارمي: 222/2 ، احمد: 307/2]
➋ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ علم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (زنا دقہ ) کو جلایا ہے تو انہوں نے فرمایا اگر میں ایسا کرتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
لا تعذبوا بعذاب الله
”اللہ کے عذاب کے ساتھ سزا نہ دو ……“
البتہ میں انہیں ضرور قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو ۔
[بخارى: 3017 كتاب الجهاد والسير: باب لا يعذب بعذاب الله]
❀ واضح رہے کہ بوقت ضرورت درختوں اور دیگر سامان کو جلایا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ :
حرق رسول الله نخل بني نضير و قطع
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلا دیے اور کاٹ دیے ۔“
[بخاري: 4031 ، كتاب المغازى: باب حديث بني النضير ، مسلم: 1746]
(جمہور ) دشمن کے شہر میں تخریب کاری اور (سامان کو ) جلانا درست ہے لیکن ضرورت و مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔
[فتح البارى: 265/6]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ ‎– وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ [الأنفال: 15 – 16]
”اے ایمان والو! جب تم کافروں سے روبرو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پیٹھ مت پھیرو اور جو شخص اس وقت پیٹھ پھیرے گا مگر جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آ جائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا ۔ وہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔“
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات ہلاک کر دینے والی اشیاء سے بچو (ان میں سے ایک یہ ہے ):
التولى يوم الزحف
”مقابلے والے دن پیٹھ پھر جانا ۔“
[بخارى: 2766 ، كتاب الوصايا: باب قول الله تعالى: إن الذين يا كلون أموال اليتمى ، ابو داود: 2874 ، نسائي: 257/6]
متحر فا لقتال “ کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب سے دوسری جانب کو پھرنا ، دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے مثلا تنگ جگہ سے کشادہ جگہ کی طرف پھر جانا ، نیچے سے اوپر ، کھلی جگہ سے پوشیدہ کی طرف وغیرہ ۔
متحيزا إلى فئة “ کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کی پناہ و حفاظت میں چلے جانا پھر ان کے ساتھ مل کر لڑنا ۔
[تفسير فتح القدير: 294/2 ، تيسير العلى القدير: 278/2 ، تفسير قرطبي: 383/7]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے