کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟
تحریر: ابو حمزہ سلفی

امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حوالے سے امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے منسوب ایک قول پر فرمایا: “ذاك قول الشيطان” یعنی یہ نعوذباللہ شیطان کا قول ہے۔

یہ روایت سنداً صحیح اور ثابت ہے۔ جمہور محدثین نے اس کی سند کے رواۃ کو ثقہ اور معتبر قرار دیا ہے، اور اس پر ہونے والے اعتراضات محض تاویلات اور قیاس کی بنیاد پر ہیں۔

بریلوی مکتبِ فکر کے بعض لوگ خصوصاً اسد الطحاوی بدعتی اس روایت کا انکار کرتے ہیں اور طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے ہیں، مثلاً:

  • سند میں بعض رواۃ پر “قدری” ہونے کا الزام لگا کر اسے ناقابلِ قبول کہنا؛

  • یہ دعویٰ کرنا کہ بصرہ کے لوگوں نے تعصب کی وجہ سے یہ روایت گھڑی؛

  • یا یہ کہ امام ابو حنیفہؒ پر ایسا قول منسوب ہی نہیں۔

ان تمام شبہات کا جواب دینا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ روایت واقعی صحیح سند سے امام ابو حنیفہؒ سے ثابت ہے، یہی اس مضمون کا مقصد ہے۔ اس کے لیے ہم ایک ایک اعتراض نقل کریں گے اور پھر اس کا تحقیقی الجواب پیش کریں گے۔

تاریخ بغداد میں موجود روایت کا اصل متن اور سند کے رواۃ

أَخْبَرَنَا ابْنُ رِزْقٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ سَلْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، بِنَيْسَابُورَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ، فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ،
قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَهُ، فَقَالَ لَهُ: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ "؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لَا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا.

اردو ترجمہ

عبدالوارث کہتے ہیں: میں مکہ میں تھا اور وہاں ابو حنیفہ موجود تھے۔ میں ان کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ایک شخص نے ان سے مسئلہ پوچھا تو امام ابو حنیفہ نے جواب دیا۔ اس نے کہا: “عمر بن خطابؓ کی اس بارے میں کیا روایت ہے؟”
امام ابو حنیفہ نے فرمایا: “یہ شیطان کا قول ہے۔”

راوی کہتا ہے: میں نے یہ سن کر سبحان اللہ کہا۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا: کیا تمہیں تعجب ہے؟ اس سے پہلے بھی ایک شخص آیا اور اس نے ایک مسئلہ پوچھا، ابو حنیفہ نے جواب دیا۔ اس نے کہا: “رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ پچھنے لگانے والا اور جس پر پچھنے لگائے گئے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔” تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: “یہ محض مسجع کلام ہے۔”
میں نے دل میں کہا: یہ وہ مجلس ہے جس کی طرف میں اب کبھی نہیں آؤں گا۔

(تاریخ بغداد، ج 13، ص 387)

سند کے رواۃ کی حیثیت

  1. الخطيب البغدادي — ثقة حجة۔

  2. محمد بن أحمد البزار، أبو الحسن أبو بكر — ثقة متقن۔

  3. أحمد بن جعفر الخَتْلي، أبو بكر — ثقة ثبت۔

  4. أحمد بن علي الأبار، أبو العباس البغدادي النخشبي — ثقة حافظ۔

  5. محمد بن يحيى الذهلي النيسابوري — ثقة حافظ جلیل۔

  6. عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج التميمي، أبو معمر البصري المنقري — ثقة ثبت، اگرچہ اس پر قدری ہونے کی نسبت ہے۔

  7. عبد الوارث بن سعيد العنبري البصري — ثقة ثبت، اس پر قدری ہونے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں۔

پہلا اعتراض — سند میں قدری رواۃ کی موجودگی

❖ اعتراض

بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں دو رواۃ أبو معمر عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج اور عبد الوارث بن سعيد ہیں۔
دونوں پر “قدری” ہونے کا الزام ہے۔ بدعتی کی روایت مردود ہے، لہٰذا یہ روایت ناقابلِ حجت ہے۔

الجواب

① عبد الوارث بن سعيد (ت 180ھ)

  • حافظ ابن حجر:

    «ثقة ثبت رُمي بالقدر ولم يثبت عنه»
    (تقريب التهذيب، رقم: 3888)
    ترجمہ: وہ ثقہ اور ثبت ہیں، ان پر قدری ہونے کا الزام لگایا گیا، لیکن وہ ثابت نہیں ہوا۔

  • امام ذہبی:

    «قد كان عبد الوارث إمامًا حجّة متعبدًا»
    (تاريخ الإسلام، 10/672)
    ترجمہ: عبد الوارث امام، حجت اور عبادت گزار تھے۔

وضاحت:
عبد الوارث کے بارے میں “قدری” ہونے کا الزام تو ذکر ہوا، مگر ائمہ نے تصریح کی کہ یہ الزام ثابت نہیں۔ بلکہ ان کو امام، حجت اور ثبت کہا گیا ہے۔

② أبو معمر عبد الله بن عمرو المنقري (ت 225ھ)

  • امام ابو زرعہ الرازی:

    «كان حافظًا – ثقة»
    (الجرح والتعديل، 5/66)
    ترجمہ: وہ حافظ اور ثقہ تھے۔

  • امام ابو حاتم الرازی:

    «صدوق متقن قوي الحديث»
    (الجرح والتعديل، 5/66)
    ترجمہ: وہ سچے، پختہ اور قوی الحدیث تھے۔

  • امام یحییٰ بن معین:

    «ثقة نبيل عاقل»
    (سؤالات ابن الجنيد، ص: 673)
    ترجمہ: وہ ثقہ، نبیل اور عقل مند تھے۔

  • حافظ ذہبی:

    «حافظ»
    (الكاشف، 2/175)
    ترجمہ: وہ حافظ تھے۔

  • حافظ ابن حجر:

    «ثقة ثبت»
    (تقريب التهذيب، رقم: 3498)
    ترجمہ: وہ ثقہ اور ثبت تھے۔

وضاحت:
أبو معمر پر “قدری” ہونے کی نسبت ضرور ملتی ہے، لیکن اس کے باوجود تمام بڑے ائمہ نے ان کو ثقہ، قوی الحدیث اور متقن کہا ہے۔

③ اصولی قاعدہ

  • یحییٰ بن سعید القطان:

    «عباد بن منصور ثقة، لا ينبغي أن يترك حديثه لرأي أخطأ فيه، يعني القدر»
    (الجرح والتعديل، 6/23)
    ترجمہ: عباد بن منصور ثقہ ہیں۔ ان کی حدیث محض اس لیے ترک نہیں کرنی چاہیے کہ وہ قدر کے مسئلے میں غلط رائے رکھتے تھے۔

وضاحت:
اصول حدیث یہ ہے کہ اگر کوئی راوی ثقہ ہو، لیکن کسی بدعت کا قائل ہو اور وہ اپنی بدعت کی تبلیغ نہ کرتا ہو، تو اس کی روایت قبول کی جاتی ہے۔

✅ نتیجہ

  • عبد الوارث پر قدری ہونے کا الزام ثابت ہی نہیں۔

  • أبو معمر ثقہ اور قوی الحدیث ہیں، ان پر قدری ہونے کی نسبت ان کی عدالت کو مجروح نہیں کرتی۔

  • اصولی قاعدہ بھی یہی ہے کہ بدعتی راوی اگر ثقہ ہے تو اس کی روایت مقبول ہے۔

  • لہٰذا یہ اعتراض کہ سند میں قدری راوی ہیں، بے بنیاد اور مردود ہے۔

دوسرا اعتراض — بصرہ کے لوگوں کا تعصب

❖ اعتراض

بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ بصرہ کے محدثین اور اہلِ علم کو امام ابو حنیفہؒ سے تعصب تھا۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف اس طرح کی روایات گھڑ لی گئیں، تاکہ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت کو کمزور دکھایا جائے۔

الجواب

① روایت کی بنیاد سند ہے، تعصب کی کہانی نہیں

  • محدثین کے نزدیک روایت کی صحت یا ضعف کا دارومدار سند اور رواۃ کی عدالت و ضبط پر ہوتا ہے، نہ کہ علاقے یا شہر کے تعصب پر۔

  • یہ دعویٰ کہ “بصرہ کے لوگوں نے تعصب کی بنا پر روایت گھڑی” کوئی سندی شہادت نہیں رکھتا۔

② ائمہ کی صریح توثیقات

اس روایت کے تمام رواۃ (عبد الوارث، أبو معمر، محمد بن يحيى الذهلي، أحمد بن علي الأبار وغیرہ) پر ائمہ نے صراحتاً ثقہ، ثبت اور حافظ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

مثلاً:

  • ابن حجر نے عبد الوارث کے بارے کہا:

    «ثقة ثبت رمي بالقدر ولم يثبت عنه»
    (تقريب التهذيب، 3888)
    ترجمہ: وہ ثقہ ثبت ہیں، ان پر قدری ہونے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں ہوا۔

  • یحییٰ بن معین نے أبو معمر کے بارے فرمایا:

    «ثقة نبيل عاقل»
    (سؤالات ابن الجنيد، ص: 673)
    ترجمہ: وہ ثقہ، نبیل اور عقل مند تھے۔

یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ ان کی روایت کو اعتماد کے ساتھ قبول کیا گیا۔

③ تاریخی قصے حجت نہیں

  • یہ کہنا کہ بصرہ والوں کو امام ابو حنیفہؒ سے بغض تھا، محض ایک قصہ ہے، جس کی کوئی معتبر سند نہیں۔

  • اگر ہم یہ اصول مان لیں تو پھر ہر صحیح روایت کو تعصب کا نام دے کر رد کیا جا سکتا ہے۔

  • محدثین کا منہج یہ ہے کہ جب تک سند صحیح ہو اور رجال ثقہ ہوں، روایت مقبول ہے، خواہ راوی بصرہ کا ہو یا کوفہ کا۔

④ خود احناف کی کتابوں سے

بعض حنفی علماء نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ پر بعض اقوال ثابت ہیں جن میں انہوں نے سخت الفاظ استعمال کیے۔
لہٰذا انکار کرنے کے بجائے حقیقت کو ماننا اور علمی طور پر اس کی توجیہ پیش کرنا زیادہ منصفانہ طرز ہے۔

✅ نتیجہ

“بصرہ کے تعصب” کا اعتراض کوئی علمی یا سندی دلیل نہیں۔
اس روایت کے رجال ثقہ اور معتبر ہیں، اور روایت سنداً صحیح ہے۔
لہٰذا تعصب والی تاویل روایت کے رد کے لیے ہرگز کافی نہیں۔

تیسرا اعتراض — دارقطنی اور ابن حجر کی جرح

❖ اعتراض

بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ امام دارقطنی اور حافظ ابن حجر نے عاصم بن بہدلہ (جو اس سند میں ہے) پر جرح کی ہے۔ دارقطنی نے کہا کہ اس کے حفظ میں کچھ ہے، اور ابن حجر نے کہا کہ وہ صدوق ہے لیکن اس سے اوہام ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سند قابلِ اعتماد نہیں۔

الجواب

① امام دارقطنی کی رائے

  • دارقطنی نے کہا:

    «ابن أبي النجود في حفظه شيء»
    (سؤالات البرقاني للدارقطني، ص 338)
    ترجمہ: ابن ابی النجود (یعنی عاصم بن بہدلہ) کے حفظ میں کچھ بات ہے۔

❖ وضاحت:
یہ جرح جزوی تنبیہ ہے، صریح تضعیف نہیں۔
اگر وہ ناقابلِ اعتماد ہوتے تو خود دارقطنی اپنی کتب میں ان کی کئی روایات تخریج نہ کرتے۔

② حافظ ابن حجر کی رائے

  • ابن حجر نے کہا:

    «عاصم بن بهدلة … صدوق له أوهام»
    (تقريب التهذيب، رقم 3054)
    ترجمہ: عاصم بن بہدلہ صدوق ہیں لیکن ان سے بعض اوہام (غلطیاں) سرزد ہوتی ہیں۔

❖ وضاحت:

  • “صدوق” کا مطلب ہے کہ بنیادی طور پر وہ ثقہ ہیں۔

  • “لہ اوہام” یعنی کبھی کبھار غلطی کر جاتے ہیں، یہ بہت سے ثقات کے ساتھ ہوتا ہے۔

  • ابن حجر نے بھی ان کو جھوٹا یا ضعیف نہیں کہا، بلکہ صدق و عدالت کو تسلیم کیا۔

③ جمہور محدثین کی توثیق

  • امام احمد بن حنبل:

    «ثقة رجل صالح خير»
    (العلل ومعرفة الرجال)
    ترجمہ: وہ ثقہ، صالح اور خیر تھے۔

  • یحییٰ بن معین:

    «ثقة لا بأس به»
    (رواية طهمان)
    ترجمہ: وہ ثقہ ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں۔

  • ابو زرعہ الرازی:

    «ثقة»
    (الجرح والتعديل، 5/66)
    ترجمہ: وہ ثقہ تھے۔

❖ وضاحت:
جب جمہور نے ان کو ثقہ قرار دیا تو جزوی جرح قابلِ رد ہے۔
اصولِ حدیث کے مطابق اگر ایک راوی پر جزوی جرح ہو اور کثیر تعداد میں توثیق موجود ہو تو ترجیح توثیق کو حاصل ہوتی ہے۔

④ شعیب ارناؤوط کا تبصرہ

  • ارناؤوط نے ابن حجر کی “صدوق له اوهام” پر کہا:

    «ليس بجيد … فقد وثقه يحيى بن معين، وأحمد، وأبو زرعة …»
    (تحرير تقريب التهذيب)
    ترجمہ: یہ کلام درست نہیں، کیونکہ یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، ابو زرعہ وغیرہ سب نے ان کی توثیق کی ہے۔

✅ نتیجہ

  • دارقطنی اور ابن حجر کی جرح جزوی ہے، صریح تضعیف نہیں۔

  • جمہور محدثین نے ان کو ثقہ اور صدوق قرار دیا ہے۔

  • اصولِ حدیث کے مطابق توثیق جرح پر غالب ہے، لہٰذا یہ اعتراض باطل ہے۔

چوتھا اعتراض — روایت کا انکار اور تاویلات

❖ اعتراض

بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ یہ روایت سرے سے امام ابو حنیفہؒ سے ثابت ہی نہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یا تو یہ روایت گھڑی گئی ہے، یا پھر منقول الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ بعض لوگ یہ تاویل بھی کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ایسا کہا ہی نہیں بلکہ یہ صرف دشمنوں کی طرف سے ان پر الزام ہے۔

الجواب

① روایت کی سند صحیح ہے

  • امام خطیب بغدادی نے یہ روایت پوری سند کے ساتھ ذکر کی ہے:

    أَخْبَرَنَا ابْنُ رِزْقٍ … عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ … عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ … قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ … فَقَالَ: «ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ».
    (تاريخ بغداد، 13/387)

    ترجمہ: عبدالوارث کہتے ہیں: میں مکہ میں تھا اور وہاں ابو حنیفہ تھے … ایک شخص نے حضرت عمرؓ کی روایت کا ذکر کیا تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: “یہ شیطان کا قول ہے۔”

  • اس سند کے تمام رواۃ پر ہم پہلے حصوں میں تفصیلی توثیق پیش کر چکے ہیں۔

② رواۃ پر جرح مردود ہے

  • عبد الوارث بن سعيد کے بارے حافظ ابن حجر نے کہا:

    «ثقة ثبت رمي بالقدر ولم يثبت عنه»
    (تقريب التهذيب)
    ترجمہ: وہ ثقہ ثبت ہیں، ان پر قدری ہونے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں۔

  • ابو معمر عبد الله بن عمرو کے بارے امام ابو زرعہ نے کہا:

    «كان حافظًا – ثقة»
    (الجرح والتعديل)
    ترجمہ: وہ حافظ اور ثقہ تھے۔

❖ جب ائمہ نے ان کو ثقہ اور مضبوط کہا ہے تو روایت کا انکار محض دعویٰ ہے۔

③ روایت کے متن میں کوئی اضطراب نہیں

  • بعض معترضین کہتے ہیں کہ کبھی عبدالوارث اس کو بطور مشاہدہ بیان کرتا ہے اور کبھی اپنے والد سے، لہٰذا متن مضطرب ہے۔

  • یہ بات غلط ہے، کیونکہ موجودہ سند میں عبدالوارث نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔

  • اگر کسی واقعہ کے متعدد طرق ہوں تو یہ جمع و تقویت ہے، نہ کہ اضطراب۔

④ تاویلات کی حقیقت

  • روایت کا انکار یا تاویل اس وقت کی جاتی ہے جب سند میں ضعف یا متن میں نکارت ہو۔

  • یہاں سند صحیح ہے اور متن میں نکارت بھی نہیں۔

  • امام ابو حنیفہؒ کا یہ کلمہ ان کے سخت اسلوبِ مناظرہ کی مثال ہے۔ اس سے حضرت عمرؓ پر طعن یا گستاخی لازم نہیں آتی بلکہ یہ صرف ایک روایت یا منسوب قول پر نکیر تھی۔

✅ نتیجہ

  • روایت کا انکار کرنا علمی منہج کے خلاف ہے، کیونکہ سند صحیح اور رواۃ ثقہ ہیں۔

  • تاویلات صرف کمزور پوزیشن بچانے کی کوشش ہیں۔

  • یہ روایت امام ابو حنیفہؒ سے صحیح طور پر ثابت ہے اور اس کو رد کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔

📌 پورے مضمون کا خلاصہ

  • امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں یہ روایت مکمل سند کے ساتھ ذکر کی کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے منسوب ایک قول پر فرمایا: “ذاك قول الشيطان”۔

  • مخالفین نے اس روایت پر چار بڑے اعتراضات کیے:

    1. سند میں قدری رواۃ کی موجودگی۔

    2. بصرہ کے لوگوں کے تعصب کی بنا پر روایت گھڑی گئی۔

    3. دارقطنی اور ابن حجر کی جزوی جرح۔

    4. سرے سے روایت کا انکار یا تاویل۔

  • ہم نے تفصیل سے واضح کیا کہ:

    • سند کے تمام رواۃ (عبد الوارث، أبو معمر، محمد بن يحيى الذهلي، أحمد بن علي الأبار وغیرہ) ثقہ، ثبت اور قوی الحدیث ہیں۔

    • قدری ہونے کا الزام یا تو ثابت نہیں (عبد الوارث) یا پھر غیر قادح ہے (أبو معمر)۔

    • بصرہ کے تعصب والی بات محض کہانی ہے، اس کی کوئی سندی بنیاد نہیں۔

    • دارقطنی اور ابن حجر کی جرح جزوی نوعیت کی ہے، جس سے عدالت ساقط نہیں ہوتی؛ اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔

    • روایت کا انکار اصولِ محدثین کے خلاف ہے کیونکہ سند صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔

  • لہٰذا یہ روایت امام ابو حنیفہؒ سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ اس کو رد کرنے یا اس پر شکوک پیدا کرنے کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔

اہم حوالوں کے سکین

کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 01 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 02 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 03 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 04 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 05 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 06 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 07 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 08 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 09 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 10 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 11 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 12 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 13 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 14 کیا امام ابو حنیفہ نے حضرت عمرؓ کے قول کو شیطان کا قول کہا؟ – 15

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے