لعان کرنے والی اور زانیہ عورت کا بیٹا صرف اپنی ماں اور اس کے رشتہ داروں کا وارث ہو گا اور اسی طرح اس کی ماں بھی اس کی وارث ہو گی
➊ لعان کے ایک قصے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
كان ابنها ينسب إلى أمه فجرت السنة أنه يرثها وترث منه ما فرض الله لها
”اس عورت کا بیٹا صرف اپنی ماں کی طرف ہی منسوب تھا اور یہ طریقہ جاری ہو گیا کہ وہ بیٹا اپنی ماں کا وارث ہو گا اور وہ عورت اپنے بیٹے کی وارث ہو گی ۔“
[بخاري: 5309 ، كتاب الطلاق: باب التلاعن فى المسجد ، مسلم: 1492]
➋ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم جعل ميراث ابن الملاعنة لأمه ولورثتها من بعد ها
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والی عورت کے بچے کی وراثت اس کی ماں اور اس کے بعد اس کے ورثاء کے لیے مقرر فرمائی ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2524 ، كتاب الفرائض: باب ميراث ابن الملاعنة ، ابو داود: 2907 ، 2908 ، بيهقي: 259/6]
➌ حضرت واثلہ بن اُسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت تین شخصوں کی میراث لے سکتی ہے:
عتيقها ولقيطها وولدها الذى لاعنت عليه
”آزاد کردہ غلام کی ، لاوارث بچے کی جس کی اس نے پرورش کی ہو اور اس بچے کی جس پر اس نے لعان کیا ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 623 ، كتاب الفرائض: باب ميراث ابن الملاعنة ، إرواء الغليل: 1576 ، ابو داود: 2906 ، ترمذى: 2115 ، ابن ماجة: 2742 ، احمد: 490/3 ، دار قطني: 89/4 ، بيهقى: 259/6 ، حاكم: 340/4]
➍ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ :
أيما رجل عاهر بحرة أو أمة فالولد ولد زنا لايرث ولا يورث
”جو کوئی آزاد عورت یا لونڈی کے ساتھ زنا کرے اس سے بچہ پیدا ہو تو وہ ولدِ زنا ہے ۔ وہ نہ تو وارث بنے گا اور نہ ہی اس کی میراث کوئی لے گا ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي ، ترمذي: 2113 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى إبطال ميراث ولد الزنا]
(شوکانیؒ ) لعان کرنے والی کا بچہ جس سے لعان کیا گیا ہو (یعنی ملاعنہ کے شوہر ) کا وارث نہیں بنے گا ۔
[نيل الأوطار: 133/4]
صديق حسن خانؒ علما نے اجماع کیا ہے کہ لعان کرنے والی عورت کا بچہ اور ولد زنا باپ کی وراثت کے وارث نہیں ہوں گے ۔
[الروضة الندية: 701/2]