عَول (سہام میں زیادتی اور حصوں میں کمی) کے مسائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر فرائض مزاحم ہوں تو عمول کے اصول پر عمل ہو گا
لغوی وضاحت: لفظِ عول باب عَالَ يَعْولُ (نصر ) سے مصدر ہے اس کا معنی ہے ”زیادہ اہل وعیال والا ہونا ، کفالت کرنا ، ظلم کرنا ، نیز خیانت اور نقص کے لیے بھی مستعمل ہے ۔“
اصطلاحی تعریف:
هو زيادة فى السهام ونقص فى الأنصباء
”وہ سہام میں زیادتی اور حصص میں کمی ہے ۔“
[الفرائض: ص/ 112]
عول کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مفلس اور قرض خواہ ہوں ۔ یعنی ہر ایک قرض خواہ کو مفلس کے پاس موجود باقی رقم کی نسبت سے دیا جاتا ہے انہیں اپنی اپنی پوری رقم تو نہیں ملتی لیکن جو کچھ مفلس کے پاس ہوتا ہے اسی کو برابر برابر اپنے مال میں کمی کے ساتھ وصول کر لیتے ہیں ۔
عول کے تین اصول ہیں:
ستة (چھ)
اثنا عشر (باره)
أربعة وعشرون (چوبیس)
مثلاً میت نے شوہر اور دو سگی بہنیں پیچھے چھوڑیں تو ان میں اصل المسألتہ چھ (6) ہو گا شوہر کے لیے نصف (3) اور دو سگی بہنوں کے لیے دو ثلث (4) حصہ ہے تو مجموع السہام (7) ہو گا اور یہی عامل مسئلے کا اصل ہے ۔
[الفرائض: ص/ 112]
سب سے پہلے یہ مسئلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا ۔ مشورہ کرنے پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عول کا مشورہ دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فیصلہ کر دیا ۔
[المواريث فى الشريعة الإسلامية: ص / 109 – 116]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے