میراث کی تقسیم میں اصحاب الفروض سے ابتدا کرنا واجب ہے اور جو باقی بچے گا وہ عصبہ رشتہ داروں کے لیے ہو گا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقى لأولى رجل ذكر
”شریعت کے مقرر کردہ حصے ان کے مستحق حصہ داروں کو ادا کر دو اور پھر جو کچھ باقی بچ جائے اسے سب سے قریبی مرد وارث کو دے دو ۔“
[بخاري: 6746 ، كتاب الفرائض: باب ابنى عم أحدهما أخ للأم و الآخر زوج ، مسلم: 1615 ، احمد: 313/1 ، دارمي: 368/2 ، ابو داود: 2898 ، ابن ماجة: 2740 ، ترمذى: 2098 ، طيالسي: 2609 ، ابن الجارود: 955 ، عبد الرزاق: 19004 ، ابو يعلى: 258/4 ، ابن حبان: 5996 ، شرح معاني الآثار: 390/4 ، دار قطني: 70/4 ، بيهقي: 238/6 ، شرح السنة: 448/4]
(نوویؒ ) اس مسئلے پر اجماع ہے ۔
[شرح مسلم: 60/6]
(خطابيؒ ) لأولى رجل ذكر کا معنی یہ ہے کہ عصبہ رشتہ داروں میں سے سب سے قریبی مرد ۔
[معالم السنن: 97/4]
عصبۃ: میت کے ایسے ورثا جن کا حصہ مقرر نہ ہو ۔
[الفرائض: ص / 36]
اصحاب الفروض: جن کا حصہ مقرر ہو ۔ اور فرضی حصے چھ ہیں:
نصف (آدھا )
ربع (چوتھا )
ثمن (آٹھواں )
ثلثان (دو تہائی )
ثلث (ایک تہائی )
اور سدس (چھٹا ) ۔
[الفرائض: ص / 40]
بہنیں بیٹیوں کے ساتھ مل کر عصبہ ہیں اور دو ثلث پورے کرنے کے لیے پوتی کو بیٹی کے ساتھ ملا کر چھٹا حصہ ملے گا
جس طرح اصحاب الفروض کا حصہ ادا کرنے کے بعد کوئی آدمی عصبہ کی حیثیت سے بقیہ مال کا وارث ہوتا ہے اسی طرح بہنیں بیٹیوں کے باقی حصے کی وارث ہوں گی ۔
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی ، پوتی اور بہن کی موجودگی میں فیصلہ فرمایا کہ :
للا بنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقى فللأخت
”دو ثلث پورا کرنے کے لیے بیٹی کو آدھا ترکہ اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہو گا پھر جو کچھ باقی بچے گا وہ بہن کا ہے ۔“
[بخاري: 6736 ، كتاب الفرائض: باب ميراث ابنة الابن مع بنت ، احمد: 389/1 ، ابو داود: 2890 ، ترمذي: 2093 ، ابن ماجة: 2721 ، بيهقي: 230/6]
➋ حضرت أسود فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن میں ایک بہن اور ایک بیٹی کو اس طرح وارث بنایا کہ :
جعل لكل واحدة منهما النصف
”ان میں سے ہر ایک کے لیے نصف مقرر کیا ۔“
اور اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 2516 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى ميراث الصلب ، ابو داود: 2893 ، بخاري: 6734]
(شوکانیؒ ) ان احادیث میں یہ ثبوت موجود ہے کہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ بنے گی ۔
[نيل الأوطار: 123/4]
گذشته حدیث:
للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين
اس پر بھی شاہد ہے ۔
اور اسی طرح باپ کی طرف سے بہن ، سگی بہن کے ساتھ مل کر چھٹا حصہ لے گی ماں نہ ہونے کی صورت میں دادی اور نانی کو چھٹا حصہ ملے گا ۔
جس طرح پوتی کو بیٹی (کے نصف ) کے ساتھ چھٹا حصہ دیا جاتا ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے باپ کی طرف سے بہن کو سگی بہن (کے نصف ) کے ساتھ چھٹا حصہ دیا جائے گا ۔
➊ حضرت قبیصہ بن ذؤیب فرماتے ہیں کہ ایک جدہ (دادی ) نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر اپنی وراثت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
مالك فى كتاب الله شيئ وما علمت لك فى سنة رسول الله شيئا فارجعى حتي اسال الناس
”تمہارے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سنت رسول سے مجھے تمہارے لیے کسی چیز کا علم ہے تم جاؤ میں لوگوں سے پوچھ (مشورہ کر ) لیتا ہوں ۔ پھر آپ نے لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے :
أعطاها السدس
”اسے چھٹا حصہ دیا تھا ۔“
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی (اس کا قائل ) ہے؟ تو محمد بن مسلمہ انصاری نے بھی کھڑے ہو کر اس کی مثل کہا پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے نافذ کر دیا ۔ (راوی کہتا ہے کہ ) پھر ایک دوسری جدہ (دادی) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر اپنی وراثت کا سوال کیا تو انہوں نے بھی فرمایا کہ تمہارے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے لیکن یہی سدس ہے اور اگر تم جمع ہو جاؤ (یعنی دادی کے ساتھ نانی بھی آ جائے ) پھر بھی یہی تمہارے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور جو تم میں سے اکیلی رہ جائے تو یہ (چھٹا حصہ ) اس کا ہے ۔
[مؤطا: 513/2 ، احمد: 225/4 ، ابو داود: 2894 ، ترمذي: 3101 ، ابن ماجة: 2724 ، عبد الرزاق: 19083 ، ابن الجارود: 959 ، ابو يعلى: 110/1 ، موارد الظمان: 1224 ، دارقطني: 94/4 ، حاكم: 338/4 ، بيهقي: 234/6 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه اس كي سند ثقه راويوں كي وجه سے صحيح هے ليكن اس كي صورت مرسل كي هے كيونكه قبيصه كا صديق سے سماع صحيح نهيں هے ۔ تلخيص الحبير: 179/3 ، ضعيف ابو داود: 617 ، شيخ البانيؒ نے اسے ضعيف كها هے۔]
➋ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبى جعل للجدة السدس إذا لم يكن دونها أم
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے جده کے لیے ماں نہ ہونے کی صورت میں سدس (چھٹا حصہ ) مقرر کیا ہے ۔“
[ابو داود: 2895 ، كتاب الفرائض: باب فى الجدة ، تحفة الأشراف: 87/2 ، ابن الجارود: 960 ، دار قطني: 91/4]
➌ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جدتین (دو دادیوں ) کی وراثت کے متعلق دونوں کے در میان سدس تقسیم کرنے کا فیصلہ فرمایا ۔
[عبد الله بن احمد فى زوائد المسند: 326/5 ، مجمع الزوائد: 230/4]
➍ عبد الرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دادیوں کو چھٹا حصہ دیا ۔ دو دادیاں باپ کی طرف سے اور ایک ماں کی طرف سے ۔
[دارقطني: 90/4 ، ابو داود فى المراسيل: 355 ، 356 ، ابن ابي شيبة: 269/6 ، سعيد بن منصور: 86 ، بيهقى: 236/6 ، تلخيص الحبير: 181/3 ، يه روايت مرسل هے ۔ نيل الأوطار: 125/4]
جدات (دادیوں ) کا مقررہ حصہ سدس ہے اگرچہ زیادہ ہو جائیں جبکہ وہ برابر درجے میں ہوں یعنی ماں کی ماں اور باپ کی ماں دونوں میں برابری ہے کوئی فضیلت نہیں ۔ اگر برابری نہ ہو تو جو زیادہ قریب ہو گی وہ دور والی کے حصے کو ساقط کر دے گی اور انہیں صرف مائیں ہی ساقط کر سکتی ہیں ۔ باپ جدات کو صرف اپنی جہت سے ساقط کرے گا جبکہ ماں طرفین سے کرے گی ۔
[شرح المهذب: 516/14 ، مغني المحتاج: 12/3 ، المبسوط: 168/29 ، الاختيار: 94/5 ، الكافي: ص / 567 ، كشاف القناع: 419/4 ، الانصاف: 309/7]
اور دادے کو بھی چھٹا حصہ ملے گا جبکہ ساقط کرنے والے نہ ہوں
➊ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ میرا پوتا فوت ہو گیا ہے اس کے ترکے سے میرا حصہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لك السدس
”تیرے لیے سدس (چھٹا حصہ ) ہے ۔“
جب وہ جانے لگا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر کہا ، تیرے لیے مزید چھٹا حصہ ہے ۔ پھر جب وہ جانے لگا تو اسے بلا کر کہا:
إن السدس الآخر طعمة
”دوسرا چھٹا حصہ تیرے لیے بطور رزق ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 619 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى ميراث الجد ، ابو داود: 2896 ، احمد: 428/4 ، تحفة الأشراف: 175/8 ، ترمذي: 2099 ، ابن الجارود: 961 ، دار قطني: 84/4 ، بيهقى: 244/6 ، شيخ حازم على قاضي نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 1275/3]
طعمة کا معنی یہ ہے کہ اصحاب الفروض کے کم ہونے کی وجہ سے تجھے مقررہ حصے سے زیادہ بطور رزق دیا گیا ہے یہ حصہ ہمیشہ تجھے نہیں ملے گا ۔ کیونکہ اس کا مقررہ حصہ سدس ہے اور باقی تعصبیا ہے ۔
[سبل السلام: 1276/3 ، نيل الأوطار: 126/4]
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ تم میں سے کے علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دادے کو کتنا حصہ وراثت میں دیا تھا؟ تو حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے علم ہے:
ورثه رسول الله السدس
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھٹا حصہ دیا تھا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2517 ، كتاب الفرائض: باب ما جاء فى ميراث الجد ، ابو داود: 2897]
اس مسئلے میں صحابہ کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے ۔ جیسا کہ امام بخاریؒ رقمطراز ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دادے (کی میراث ) کے متعلق مختلف فیصلے مروی ہیں ۔
[بخاري: قبل الحديث / 6737 ، كتاب الفرائض: باب ميراث الجد مع الأب والإخوة]
امام بیہقیؒ نے بھی اس مسئلے میں بہت آثار نقل فرمائے ہیں ۔
[بيهقى: 244/6 ، المعرفة: 62/5]
بہر حال صحیح اور راجح مسئلہ یہی ہے کہ دادے کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اسے ساقط کرنے والوں سے مراد باپ ہے کیونکہ اسے وراثت تب ہی ملے گی جب باپ نہ ہو ۔
[الفرائض: ص / 42]
(ابن حجرؒ ) اس پر اجماع ہے کہ باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں بنے گا ۔
[فتح البارى: 244/15]
بیٹے یا پوتے یا باپ کی موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کو وراثت نہیں ملے گی
اہل علم کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ۔
[الروضة الندية: 693/2]
کیونکہ بیٹے کی موجودگی میں وہ اصحاب الفروض کے بعد تمام مال کا مستحق ہو گا ۔ اس کی غیر موجودگی میں پوتا اور اس کی غیر موجودگی میں باپ حقدار ہوگا ۔
البتہ دادے کی موجودگی میں ان (بہن بھائیوں ) کی وراثت میں اختلاف ہے
کتاب و سنت میں اس مسئلے کے متعلق دلائل موجود نہیں اس لیے صحابہ نے اجتہاد کے ساتھ اس کا فیصلہ کیا ۔ اس مسئلے کے متعلق دو مذہب منقول ہیں ۔
پہلا مذہب: حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن زبیر ، حضرت أبی بن کعب ، حضرت حذیفہ بن یمان ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو موسی اشعری ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم (اور تابعین سے ) حضرت حسنؒ اور امام ابن سیرینؒ ۔ ان سب کا کہنا ہے کہ سگے بھائی ہوں یا باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے ، دادا کی موجودگی میں وارث نہیں بنیں گے ۔
(ابو حنیفہؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔ ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ دادا باپ کے حکم میں ہی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ [الحج: 78]
اور ایک دوسری آیت میں ہے کہ :
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ [يوسف: 38]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا زید بن ثابت اللہ سے ڈرتے نہیں وہ بیٹے کے بیٹے کو تو بیٹا قرار دیتے ہیں لیکن باپ کے باپ کو باپ قرار نہیں دیتے ۔
➌ حدیث میں ہے کہ ”شریعت کے مقرر کردہ حصے ان کے مستحق حصہ داروں کو ادا کر دو اور پھر جو کچھ باقی بچ جائے اسے سب سے قریبی مرد وارث کو دے دو ۔“ یقینا دادا بھائیوں سے زیادہ قریب ہے اس لیے باقی میراث کا وہی حقدار ہے ۔
دوسرا مذہب: حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ، جمہور ، شافعیہ ، مالکیہ اور حنابلہ ۔ ان سب کے نزدیک دادا کی موجودگی میں بھائی وارث بنیں گے اور وراثت ان (دونوں ) کے درمیان تقسیم کر دی جائے گی ۔ ان کے دلائل یہ ہیں:
➊ سگے بھائیوں اور باپ کی طرف سے بھائیوں کی وراثت قرآن سے ثابت ہے ۔ اسے نص یا اجماع کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی اور ان دونوں (نص یا اجماع ) میں سے ایک بھی موجود نہیں ۔
➋ دادا اور بھائی حق وراثت کے سبب میں مساوی ہیں ۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک ، ایک درجے کے ساتھ میت تک پہنچتا ہے ۔ اور وہ باپ ہے ۔
[اللباب: 199/4 ، القوانين الفقهية: ص / 390 ، الشرح الصغير: 634/4 ، معنى المحتاج: 21/3 ، المغنى: 215/6 ، الأم: 71/4 ، روضة الطالبين: 25/5 ، تبيين الحقائق: 238/6 ، المبسوط: 180/29 ، الحجة على أهل المدينة: 205/4]
(راجح ) حافظ ابن حجرؒ امام بخاریؒ کے اس قول:
ولم يذكر أن أحدا خالف أبا بكر فى زمانه وأصحاب النبى كانوا وافرين
”اور یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ کسی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کی مخالفت کی ہو حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وافر تعداد میں تھے ۔“
پر فرماتے ہیں کہ گویا امام بخاریؒ اس بات کے ذریعے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مؤقف کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اجماع طلوتی حجت ہوتا ہے جو اس میں حاصل ہو رہا ہے ۔
[فتح البارى: 245/15]
بیٹیوں کی موجودگی میں ماں کی طرف سے بھائیوں کے علاوہ دوسرے بھائی وارث ہوں گے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں (جو سعد سے تھیں ) کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی اے اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کے والد جنگ اُحد میں آپ کے ساتھ تھے اور شہید ہو گئے تھے ۔ ان کے چچا (یعنی میت کے بھائی ) نے ان کا مال پکڑ لیا ہے اور اس نے ان کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا اور مال کے بغیر ان کا نکاح بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہی اس معاملے میں فیصلہ فرمائیں گے تو آیتِ میراث نازل ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چچا کی طرف پیغام بھیج کر کہا:
أعط ابـنتـــى سـعـد الثلثين مهما الثمن وما بقى فهو لك
”سعد کی بیٹیوں کو دو ثلث اور ان کی ماں کو ثمن (آٹھواں حصہ ) دو اور جو باقی بچے گا وہ ہمارے لیے ہے ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1677 ، احمد: 352/3 ، ابو داود: 2892 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى ميراث الصلب ، ابن ماجة: 2720 ، ترمذي: 2092 ، حاكم: 333/4]
اس حدیث میں واضح دلیل موجود ہے کہ بھائی میت کی بیٹیوں کے ساتھ عصبہ کی حیثیت سے وارث ہوں گے ۔ البتہ جو اس کی طرف سے بھائی ہیں وہ بیٹیوں کے ساتھ وارث نہیں بنیں گے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ [النساء: 12]
”اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے ۔“
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ علما نے اجماع کیا ہے کہ اس آیت میں بہن بھائیوں سے مراد اخیافی (یعنی ماں کی طرف سے ) بہن بھائی ہیں ۔
[تفسير فتح القدير للشو كاني: 557/1]
باپ کی طرف سے بھائی ، سگے بھائی کی موجودگی میں وارث نہیں ہوگا
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم یہ آیت پڑھتے ہو:
مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ [النساء: 12]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو وصیت سے پہلے ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
وإن أعيان بنى الأم يتوارثون دون بنى العلات ، الرجل يرث أخاه لأبيه وأمه دون أخيه لأبيه
”حقیقی بھائی وارث ہوتے ہیں سوتیلے بھائی نہیں ۔ آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوتا ہے نہ کہ سوتیلے بھائی کا ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1667 ، احمد: 131/1 ، ترمذي: 2094 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى ميراث الإخوة من الأب والأم ، ابن ماجة: 2739 ، طيالسي: 1441 ، ابو يعلي: 257/1 ، دار قطني: 86/4 ، حاكم: 336/4]
(شوکانیؒ ) اس مسئلے کے متعلق کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ۔
[نيل الأوطار: 122/4]
(صدیق حسن خانؒ ) اس پر اجماع ہو چکا ہے ۔
[الروضة الندية: 695/2]