درج بالا احادیث سے نماز میں ہاتھ باندھنے کے چار مسنون طریقے تو واضح ہو گئے، اب سوال یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھے کہاں جائیں؟ تو اس ضمن میں نبیﷺ سے صحیح ترین احادیث کے مطابق سینے پر ہاتھ باندھنے ثابت ہے جبکہ جن روایات میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنےکا ذکر ہے وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔
نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق تفصیلی دلائل ان مضامین میں ملاحظہ کریں۔ زیل میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق کچھ احادیث پیش خدمت ہیں:
١- صحیح ابن خزیمہ
«عن وائل بن حجر قال: صليت مع رسول الله ﷺ فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره»
(صحيح ابن خزيمة 1/243)
ترجمہ: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
🔎 امام ابن خزیمہ اپنی "صحیح” کے آغاز میں وضاحت کرتے ہیں:
"یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک صحیح اور متصل سند کے ساتھ پہنچتی ہیں، اور ان میں کوئی مجروح یا ضعیف راوی نہیں۔”
(صحیح ابن خزیمہ 1/2)
٢- مسند امام احمد
«عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، قال: رأيت رسول الله ﷺ يضع هذه على صدره، يعني اليمنى على اليسرى فوق المفصل»
(مسند أحمد 5/226)
ترجمہ: قبیصہ بن ھلب تابعی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھتے تھے۔
✔️ اس روایت کی سند کو امام ابن سید الناس، حافظ ابن حجر، علامہ نیموی اور علامہ مبارکپوری نے صحیح قرار دیا ہے۔
٣- روایتِ وائل بن حجر
«عن سفيان الثوري، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل: أنه رأى النبي ﷺ وضع يمينه على شماله ثم وضعهما على صدره»
(البيهقي الكبرى 2/35، طبقات المحدثين 1/148)
ترجمہ: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا، پھر ان دونوں کو سینے پر رکھا۔
٤- سنن کبریٰ و معجم طبرانی
«عن وائل بن حجر قال: حضرت رسول الله ﷺ فرفع يديه بالتكبير، ثم وضع يمينه على يساره على صدره»
(البيهقي الكبرى 2/30، المعجم الكبير للطبراني 22/50، مجمع الزوائد 2/124)
ترجمہ: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے تکبیر کہی اور دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
🔎 حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (2/224) میں اس حدیث کو ذکر کیا اور فرمایا کہ جو احادیث وہ اپنی شرح میں ذکر کریں اور ان پر سکوت کریں تو وہ صحیح یا حسن ہوتی ہیں۔
🖊️ اقوالِ محدثین
-
امام ابن خزیمہ: "میری صحیح میں صرف صحیح اور متصل اسناد والی احادیث ہیں۔”
-
حافظ ابن حجر: "فتح الباری میں جو روایت ذکر کروں اور اس پر کوئی کلام نہ کروں تو وہ صحیح یا حسن ہوتی ہے۔”
-
علامہ مبارکپوری: "و رواه هذا الحديث كلهم ثقات وإسناده متصل” (تحفة الأحوذي)
-
علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی: "یہ روایات معتبر اور سنتِ ثابتہ ہیں۔” (إناء السكن)
📌 خلاصہ
مذکورہ صحیح اور صریح احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں:
-
دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔
-
اور دونوں کو سینے پر رکھا۔
یہی کیفیت متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کی اور محدثین نے اسے صحیح قرار دیا۔
لہٰذا سنت نبوی ﷺ اور صحیح احادیث کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ سینہ ہے، اس کے خلاف کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔