عورت کو مرد کے بدلے اور مرد کو عورت کے بدلے اور غلام کو آزاد کے بدلے اور کافر کو مسلمان کے بدلے قتل کیا جائے گا
➊ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا ۔ صحابہ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ کس نے ایسا کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا فلاں نے فلاں نے ۔ اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ! وہ یہودی گرفتار کر لیا گیا ۔ اس نے اس جرم کا اقرار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ :
أن يرض رأسه بين حجرين
”اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے ۔“
[بخارى: 2413 ، كتاب الخصومات: باب ما يذكر فى الأشخاص والخصومة بين المسلم واليهود ، مسلم: 1672 ، ابو داود: 4527 ، نسائي: 22/8 ، ترمذى: 1394 ، ابن ماجة: 2665 ، احمد: 183/3]
➋ حضرت عمرو بن حزم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کی طرف اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ :
أن الذكر يقتل بالأنثى
”مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا ۔“
[موطا: 849/2 ، ترتيب المسند للشافعي: 108/2 ، 363]
یعقوب بن أبی سفیان کہتے ہیں کہ میں تمام منقولہ خطوط میں عمرو بن حزم کے اس خط سے زیادہ صحیح کسی خط کو نہیں سمجھتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور تابعین اپنی رائے کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ۔
[نيل الأوطار: 456/4]
(حاکم ) عمر بن عبد العزیزؒ اور اس کے ہم عصر امام زہریؒ نے بھی اس خط کی صحت کی شہادت دی ہے ۔
[حاكم: 397/1]
(بخاریؒ ) اہل علم نے کہا ہے کہ مرد و عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا ۔
[بخارى: قبل الحديث / 6886 ، كتاب الديات: باب القصاص بين الرجال والنساء فى الجراحات]
(ابن منذرؒ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسنؒ اور امام عطاءؒ سے منقول روایت کے سوا عورت کے بدلے مرد کو قتل کرنے پر اجماع ہے ۔
[الإجماع لابن المنذر: ص / 144 ، رقم / 653]
(جمہور ) مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا ۔
(مالکؒ ، حسن بصریؒ ) مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف دیت ہی واجب ہو گی (لیکن یہ بات درست نہیں ) ۔
(شوکانیؒ ) مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا ۔
[نيل الأوطار: 453/4 ، السيل الجرار: 397/4]
یہ تو تھا مرد کو عورت کے بدلے قتل کرنے کا معاملہ ۔ اس کے علاوہ عورت کو مرد کے بدلے ، غلام کو آزاد کے بدلے ، کا فر کو مسلمان کے بدلے اور فرع (اولاد ) کو اصل (والدین ) کے بدلے قتل کرنا بلا اختلاف واضح ہے ۔ لیکن ان آخری تین صورتوں کے برعکس صورتوں میں اختلاف ہے جس کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
آزاد کو غلام کے بدلے قتل کرنا:
➊ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قتل عبده قـتلناه ومن جدع عبده جد عناه
”جس نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے اور جس نے اس کا ناک ، کان کاٹا ، ہم بھی اس کا ناک ، کان کاٹ دیں گے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 974 ، كتاب الديات: باب من قتل عبده أو مثل به أيقاد منه ، ابو داود: 4515 ، ترمذي: 1414 ، نسائي: 20/8 ، ابن ماجة: 2663]
یہ روایت اُن حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں مالک کو غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانیؒ وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
➋ ایک روایت میں ہے کہ ”ایک آدمی نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوڑے لگائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا اور اس کا حصہ مسلمانوں سے ختم کر دیا اور اس سے قصاص نہیں لیا اور اسے حکم دیا کہ ایک گردن آزاد کر دے ۔
[دار قطني: 143/3 ، رقم/ 187]
یہ روایت ان کی دلیل ہے جو مالک کو غلام کے بدلے نہ قتل کرنے کے قائل ہیں لیکن یہ روایت بھی کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش راوی ضعیف ہے ۔
[الجرح والتعديل: 191/2 ، ميزان الاعتدال: 240/1]
➌ قرآن میں ہے کہ :
الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [البقرة: 178]
”آزاد کو آزاد کے بدلے اور غلام کو غلام کے بدلے قتل کیا جائے ۔“
یہ بھی قتل سے روکنے والوں کی دلیل ہے لیکن اس میں بھی واضح اشکال ہے ۔
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
من السنة لا يقتل حر بعبد
”سنت یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔“
[بيهقى: 34/8 ، اس كي سند ميں جابر جعفي راوي متروك هے ۔ المجروحين: 168/1 ، الجرح و التعديل: 497/2 ، المغنى: 126/1 ، الكاشف: 122/1]
➎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقاد مملوك من مالكه ولا ولد من والده
”غلام کا قصاص اس کے مالک سے نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی بچے کا باپ سے ۔“
[بيهقى: 36/8 ، الكامل لا بن عدي: 1713/5 ، اس كي سند ميں عمر بن عيسي أسلمي راوي منكر الحديث هے ۔ الكامل لا بن عدي: 1713/5]
(احناف ، سعید بن سیبؒ ، شعبیؒ ، قتادہؒ ، ثوریؒ ) آزاد کو غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا جبکہ مقتول قاتل کا اپنا غلام نہ ہو اور اگر مالک کا اپنا غلام ہو تو بالا جماع اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔
(احمدؒ ، اسحاقؒ ، مالکؒ ، شافعیؒ ) مطلق طور پر مالک کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا خواہ وہ غلام اس کا اپنا ہو یا کسی اور کا ہو ۔
[نيل الأوطار: 451/4 ، الأم للشافعي: 26/6 ، المبسوط: 129/26 ، المغنى: 473/11 ، بداية المجتهد: 398/2]
(راجح ) آزاد کو غلام کے بدلے قتل کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔
[السيل الجرار: 393/4 ، سبل السلام: 1576/4]