اگر ورثا چاہیں تو قصاص مکلّف و خود مختار شخص پر واجب ہو جاتا ہے ورنہ وہ دیت طلب کر سکتے ہیں
لغوی وضاحت: لفظِ قصاص کا معنی ہے بدلہ اور گناہ کی سزا ۔ باب اقتصَّ يَقْتَصُّ (افتعال ) قصاص لینا ۔ باب تَقَاصى يَتَقَاصُي (تفاعل) ایک دوسرے سے قصاص لینا ۔
[المنجد: ص / 694 ، القاموس المحيط: ص / 564]
شرعی تعریف: مجرم کو اس کے جرم کی مثل سزا دینا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 5661/7]
قصاص کی مشروعیت و فرضیت:
➊ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى [البقرة: 178]
”اے ایمان والو! تم پر مقتولین میں قصاص فرض کر دیا گیا ہے ۔“
➋ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ [البقرة: 179]
”اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو! ۔“
➌ وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ …….. [المائدة: 45]
”اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے ۔“
➍ حدیث نبوی ہے کہ :
لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس والثيب الزاني والتارك لمدينه المفارق للجماعة
”کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہے مگر تین میں سے ایک سبب کے ساتھ: (قصاص میں ) جان کے بدلے جان ، شادی شدہ زانی اور اپنا دین چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہو جانے والا ۔“
[بخاري: 6878 ، كتاب الديات: باب قول الله تعالى: أن النفس بالنفس ، مسلم: 1676 ، ترمذي: 1402 ، ابو داود: 4352 ، نسائي: 92/7 ، ابن ماجة: 2534 ، احمد: 382/1]
➎ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا دیت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لیے فرمایا:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى [البقرة: 178]
”مقتولین میں تم پر قصاص فرض کر دیا گیا ہے ۔“
اور فرمایا:
فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ [البقرة: 178]
”پس جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے ۔“
(آیت میں ) عفو سے مراد قتلِ عمد میں دیت قبول کرنا ہے ۔
[بخاري: 4498 ، كتاب تفسير القرآن: باب قوله تعالى: يايها الذين آمنوا كتب عليكم القصاص فى القتلى ، نسائى فى السنن الكبرى: 11014 ، دارقطني: 198/3]
➏ قصاص کے وجوب پر اُمت کا اجماع ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 5662/7]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں سوائے تین خصائل میں سے کسی ایک کے ساتھ (ان میں سے ایک یہ ہے )
أو يقتل نفسا فيقتل بها
”جو کسی نفس کو قتل کر دے اور پھر اس کے بدلے میں قتل کر دیا جائے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3659 ، كتاب الحدود: باب الحكم فيمن ارتد ، ابو داود: 4353 ، احمد: 214/6 ، نسائي: 101/7 ، حاكم: 367/4 ، مسلم: 1676]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قتل لـه قتيل فـهـو بـخـيـر النظرين إما أن يفتدى وإما أن يقتل
”جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے عوض قتل کر دیا جائے ۔“
[بخارى: 2434 ، كتاب فى اللقطة: باب كيف تعرف لقطة أهل مكة ، مسلم: 1355 ، ابو داود: 4505 ، ترمذي: 1405 ، 2667 ، نسائي: 38/8 ، ابن ماجة: 2624 ، احمد: 238/2]
(شافعیؒ ) قصاص اور دیت واجب ہیں لیکن ان دونوں میں اختیار ہے ۔
(مالکؒ ، طبریؒ ، احناف ) قتل کے بدلے میں قصاص واجب ہے دیت نہیں ۔
[الأم: 10/6 ، بدائع الصنائع: 4633/10 ، المغنى: 457/11]
(راجح ) امام شافعی کا مذہب راجح ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: نيل الأوطار: 443/4]