شاتمِ رسول ذمی کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

شاتمِ رسول ذمی کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا:
السام عليك
”آپ پر موت ہو“
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وعليك
”اور تجھ پر بھی ۔“
صحابہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ، إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم
”نہیں ، بلکہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم انہیں (جواب میں صرف ) وعلیکم کہو ۔“
[بخاري: 6926 ، كتاب استتابة المرتدين: باب إذا عرض الذى أو غيره بسب النبى ولم يصرح نحو قوله: السام عليك ، أحمد: 210/3 ، نسائى فى عمل اليوم والليلة: 385]
شاتم رسول ذمیوں (اہل کتاب ) کو قتل کیا جائے گا یا نہیں اس میں اختلاف ہے:
(احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ ) اگر اسلام قبول نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا ۔
(احناف ) اگر ذمی ہو تو اسے سخت مارا جائے گا اور اگر مسلمان ہو تو وہ مرتد ہے ۔
(طحاویؒ ) یہود اگر ایسا کریں تو جس پر وہ پہلے ہیں وہ تو کفر سے بھی زیادہ سخت ہے ۔
(ابن حجرؒ ، شوکانیؒ ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو تالیف قلب کی مصلحت کی وجہ سے قتل نہیں کیا یا اس لیے کہ وہ ظاہری طور پر (گالی ) نہیں دیتے تھے یا ان دونوں وجوہات کی بنا پر اور یہی زیادہ بہتر ہے ۔
[نيل الأوطار: 652/4 ، غاية المنتهى: 359/3 ، القوانين الفقهية: ص / 364]
(راجح ) جب وہ اعلانیہ سب و شتم نہ کریں بلکہ تعریض و کنایہ کے ذریعے ہی عداوت کی بھڑاس نکالیں تو انہیں قتل نہ کرنا ہی زیادہ بہتر ہے بصورت دیگر انہیں قتل کر دیا جائے گا ۔
[فتح البارى: 284/14]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے