سوال :
درج ذیل روایت کی سند کیسی ہے؟
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أحدث يعني الرجل وقد جلس فى آخر صلاته قبل أن يسلم فقد جازت صلاته.
”آدمی آخری تشہد میں بیٹھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے بے وضو ہو جائے، تو اس کی نماز ہو گئی۔“
(سنن أبي داود: 617 ، سنن الترمذي: 408 ، واللفظ له، سنن الدارقطني: 379/1 ، السنن الكبرى للبيهقي: 176/2 ، شرح معاني الآثار للطحاوي:274/1)
جواب :
روایت ضعیف منقطع اور مضطرب ہے۔
① عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی ”ضعیف“ ہے۔
② عبد الرحمن بن رافع تنوخی ضعیف ہے، اس کا متابع بکر بن سوادہ اگرچہ ثقہ ہے، مگر ان کا سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سماع معلوم نہیں۔ جہاں سماع کی تفصیل ہے، وہاں نیچے سند ضعیف ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بكر بن سوادة لم يسمع من عبد الله بن عمرو.
”بکر بن سوادہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سماع نہیں کیا۔“
(المجموع: 463/3)
اس حدیث کے بارے میں:
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اتفق الحفاظ على ضعفه لأنه مضطرب ومنقطع.
”حفاظ حدیث کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ یہ مضطرب اور منقطع ہے۔“
(خلاصة الأحكام: 449/1)
❀ نیز فرماتے ہیں:
ضعيف باتفاق الحفاظ ، ضعفه مشهور فى كتبهم.
”اس حدیث کے ضعیف ہونے پر حفاظ حدیث کا اتفاق ہے،اس کا ضعیف ہونا محدثین کی کتب میں مشہور ہے۔“
(المجموع: 481/3)
❀ نیز فرماتے ہیں:
ضعيف بالاتفاق.
”یہ حدیث بالا اتفاق ضعیف ہے۔“
(المجموع: 425/3)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد ضعفه الحفاظ.
”حفاظ حدیث نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“
(فتح الباري: 323/2)
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”منکر“ کہا ہے۔
(الجرح والتعديل: 232/5)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده ليس بذاك القوي، وقد اضطربوا فى إسناده.
”اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، اس کی سند میں اضطراب ہے۔“
(سنن الترمذي، تحت الحديث: 408)
❀امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يقال للمحتج بهذا الخبر: إنه خبر مضطرب المتن والإسناد.
”جو اس حدیث سے حجت پکڑے،اسے کہا جائے گا: اس کے متن اور سند میں اضطراب ہے۔“
(الخلافيات للبيهقي: 225/3)
❀حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يصح.
”یہ حدیث ثابت نہیں۔“
(السنن الكبرى: 176/2)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا الحديث لا يصح لضعف إسناده واختلافهم فى لفظه .
”یہ حدیث ثابت نہیں، کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے الفاظ بیان کرنے میں رواۃ کا اختلاف (اضطراب) ہے۔ “
(التمهيد : 214/10)
❀ نیز فرماتے ہیں:
لا هذا الحديث يصح أصلا.
”یہ حدیث سرے سے ثابت ہی نہیں۔“
(الاستذكار : 524/1)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا الحديث ضعيف وقد تكلم الناس فى بعض نقلته وقد عارضته الأحاديث التى فيها إيجاب النشهد والتسليم .
”یہ حدیث ضعیف ہے ،محدثین نے اس کے بعض رواۃ پر کلام کیا ہے ، پھر وہ احادیث بھی اس کے معارض و مخالف ہیں، جو تشہد اور سلام کے وجوب پر دلالت کناں ہیں ۔“
(معالم السنن : 140/1)
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن هذا الحديث لم يصح .
”یہ حدیث ثابت نہیں۔ “
(القبس في شرح موطأ مالك بن أنس، ص 224 )
❀ حافظ ذہبی رحم اللہ نے اس روایت کو ”منکر “کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 560/2)
❀حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رفعه منكر جدا .
”ا سے مرفوع بیان کرنا سخت منکر ہے۔ “
(فتح الباري : 218/5)