سوال :
ایک عورت کو تین طلاق ہو گئیں، وہ پہلے خاوند سے آزاد ہوگئی، پھر اس نے کسی سے زنا کرلیا، تو کیا اب وہ پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے؟
جواب:
تیسری طلاق کے بعد عورت شوہر کے عقد سے نکل جاتی ہے اور اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
البتہ اگر عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح صحیح کرے، تو طلاق یا وفات شوہر کی صورت میں عدت کے بعد پہلے خاوند کے لیے حلال ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ نکاح صحیح کے بعد جماع شرط ہے، یہ جماع نکاح صحیح کے بعد ہو، اب چونکہ زنا نکاح نہیں، لہذا اس سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوتی۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾
(البقرة: 230)
”اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے، تو اب وہ اس کے لیے حلال نہیں، تا آنکہ وہ عورت اس کے علاوہ دوسرے مرد سے نکاح کر لے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے، تو ان دونوں (عورت اور سابقہ شوہر) کو دوبارہ (نکاح جدید کے ساتھ ) میل جول کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ انہیں یقین ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، جنہیں وہ جاننے والوں کے لیے واضح کر رہا ہے۔“
❀ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ (310ھ) فرماتے ہیں:
إن وطئها واطي بغير نكاح لم تحل للأول بإجماع الأمة جميعا.
”اگر کوئی وطی کرنے والا (زانی) اس عورت سے بغیر نکاح کے وطی کر لے، تو وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس پر ساری امت کا اجماع ہے۔“
(تفسير الطبري: 169/4)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
”جس عورت کو اس کا خاوند ایک یا دو طلاقیں دے دے اور عدت ختم ہو جانے تک رجوع نہ کرے، عورت کسی اور سے شادی کر لے اور وہ فوت ہو جائے یا طلاق دے دے، پھر پہلے خاوند سے نکاح کرلے، تو یہ عورت پہلے خاوند کے پاس بقیہ طلاق کی بنا پر رشتہ ازدواج قائم رکھ سکتی ہے۔“
(مؤطأ الإمام مالك: 586/2، وسنده صحيح)