قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ (م 728ھ) پر بعض معاصرین اور متاخرین نے یہ اعتراضات کیے ہیں کہ:

  1. انہوں نے اپنے آپ کو اشعری کہا۔
  2. قرآن کو قدیم مانا اور حرف و صوت کا انکار کیا۔
  3. استواء کے مسئلے میں تفویض (یعنی ہم معنی نہیں جانتے) کیا۔

ان اعتراضات کو بنیاد بنا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ امام ابن تیمیہ نے اپنے اصل عقیدے سے رجوع کر لیا تھا یا وہ اہل سنت کے منہج سے ہٹ گئے تھے۔ حالانکہ یہ دعوے تحقیق کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور ان میں شدید تحریف و تسامح ہے۔

✿ اعتراض کا ماخذ

طاہر مقبول دیوبندی نے اپنی ایک فیسبک پوسٹ میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی کتابالدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنةسے ایک عبارت نقل کی ہے، جس میں امام ابن تیمیہ کے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں:

النص:

فَكتب عليه محضر بأنه قال أنا أشعري، ثم وجد خطه بما نصه: الذي اعتقد أن القرآن معنى قائم بذات الله وهو صفة من صفات ذاته القديمة، وهو غير مخلوق وليس بحرف ولا صوت، وأن قوله {الرحمن على العرش استوى} ليس على ظاهره، ولا أعلم كنه المراد به، بل لا يعلمه إلا الله.
(الدرر الكامنة لابن حجر)

📌 ترجمہ:
"ابن تیمیہ پر ایک محضر لکھا گیا کہ انہوں نے کہا: میں اشعری ہوں۔ پھر ان کی اپنی تحریر میں یہ پایا گیا کہ: میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن ایک ایسا معنی ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اور یہ اس کی قدیم صفات میں سے ایک ہے، یہ مخلوق نہیں ہے، اور یہ حرف و صوت کے بغیر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: {الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} اپنے ظاہر پر نہیں ہے، اور میں اس کے مراد کو نہیں جانتا، بلکہ اس کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔”

✿ مختصر جواب

یہ عبارت بظاہر امام ابن تیمیہ سے منسوب کی جاتی ہے اور اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے:

  • اپنا انتساب اشاعرہ کی طرف کیا۔
  • قرآن کو صرف ایک قدیم معنی قرار دیا، حرف و صوت کے بغیر۔
  • اور استواء کے بارے میں کہا کہ اس کا ظاہر مراد نہیں اور اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔

لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ یہ عبارت:

  • سنداً ثابت نہیں۔
  • تاریخ البرزالی میں موجود ہی نہیں۔
  • اور امام ابن تیمیہ کے اپنے اقوال اور ان کے شاگردوں (ابن عبدالہادی، ابن القیم، وغیرہ) کی شہادتوں کے بالکل خلاف ہے۔

✿ اعتراض 1: امام ابن تیمیہ نے کہا "أنا أشعري”

طاہر مقبول دیوبندی کے مطابق حافظ ابن حجر نے الدرر الكامنة میں یہ نقل کیا کہ امام ابن تیمیہ نے قید سے رہائی کے وقت اپنے اوپر ایک محضر لکھوایا جس میں انہوں نے کہا: "أنا أشعري”(میں اشعری ہوں)۔

◈ الجواب

  1. یہ نسبت بے سند اور منقطع ہے:
    • جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، یہ عبارت اصل ماخذ (تاریخ البرزالی) میں موجود ہی نہیں۔
    • لہٰذا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امام ابن تیمیہ نے واقعی یہ الفاظ کہے ہوں۔
  2. امام ابن تیمیہ کا واضح فتویٰ:
    امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں صاف لکھا:النص:

    فهذا يعد من أهل السنة؛ لكن مجرد الانتساب إلى الأشعري بدعة.
    (مجموع الفتاوى 6/359)

    📌 ترجمہ:
    "اشاعرہ کو اہل سنت میں شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن محض اشعری کی طرف انتساب کرنا بدعت ہے۔”

    ➡️ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ نے کبھی خود کو اشعری نہیں کہا، بلکہ صاف کہا کہ صرف اشعری کہلانا بدعت ہے۔

  3. اہم وضاحت:
    • امام ابن تیمیہ نے اہل سنت کے دائرے میں آنے والے بعض اشاعرہ کا ذکر ضرور کیا، لیکن یہ صرف اس لیے کہ ان میں کئی حق باتوں پر اہل سنت سے موافقت تھی۔
    • تاہم انہوں نے اشعری عقیدے کے بڑے اصول (کلام اللہ بغیر حرف و صوت، صفات کی تاویل وغیرہ) کو ہمیشہ رد کیا۔

✿ نتیجہ

امام ابن تیمیہ کی طرف "أنا أشعری” کی نسبت درست نہیں، بلکہ ان کے اپنے قلم سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ اشعری کہلانا بدعت ہے۔ لہٰذا یہ الزام بے بنیاد ہے۔

✿ اعتراض 2: امام ابن تیمیہ نے قرآن کو قدیم مانا اور حرف و صوت کا انکار کیا

مخالفین کے مطابق حافظ ابن حجر نے الدرر الكامنة میں نقل کیا کہ ابن تیمیہ نے اپنی تحریر میں یہ لکھا:

"الذي اعتقد أن القرآن معنى قائم بذات الله وهو صفة من صفات ذاته القديمة، وهو غير مخلوق وليس بحرف ولا صوت.”

📌 ترجمہ: "میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن اللہ کی ذات میں قائم ایک معنی ہے، جو اس کی قدیم صفات میں سے ایک صفت ہے، یہ غیر مخلوق ہے لیکن اس میں نہ حروف ہیں اور نہ آواز۔”

◈ الجواب

  1. یہ قول ابن تیمیہ کے منہج کے خلاف ہے:
    امام ابن تیمیہ نے اپنی پوری زندگی جہمیہ اور اشاعرہ کے اس نظریے کی تردید کی جو قرآن کو صرف ایک قدیم معنی مانتے تھے، بغیر حرف و صوت کے۔
  2. ابن تیمیہ کا واضح کلام:النص:

    والقرآن كلام الله بحروفه ونظمه ومعانيه، كل ذلك يدخل في القرآن وفي كلام الله.
    (مجموع الفتاوى 12/559)

    📌 ترجمہ: "قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کے حروف، اس کا نظم، اس کے معانی سب قرآن اور کلام اللہ میں شامل ہیں۔”

النص:

والتصديق بما ثبت عن النبي ﷺ أن الله يتكلم بصوت، وينادي آدم بصوت.
(مجموع الفتاوى 6/527)

📌 ترجمہ: "ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں جو نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ اللہ آواز کے ساتھ کلام کرتا ہے اور آدم کو آواز سے بلایا۔”

النص:

كمن قال: إن الله لا يتكلم بحرف ولا بصوت، فإنه مبتدع منكر للسنة.
(مجموع الفتاوى 12/560)

📌 ترجمہ: "جو یہ کہے کہ اللہ حروف اور آواز کے بغیر کلام کرتا ہے، تو وہ بدعتی اور سنت کا منکر ہے۔”

 

  1. قرآن قدیم کہنے کا رد:النص:

    ولم يقل أحد من السلف إن القرآن قديم، وإنما قالوا: القرآن كلام الله منزل غير مخلوق.
    (مجموع الفتاوى 12/566)

    📌 ترجمہ: "سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ قرآن قدیم ہے۔ بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، نازل کیا گیا ہے اور غیر مخلوق ہے۔”

✿ نتیجہ

  • امام ابن تیمیہ نے ہمیشہ یہ موقف رکھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، حروف و صوت کے ساتھ۔
  • انہوں نے جہمیہ و اشاعرہ کے نظریہ "قرآن قدیم بلا حرف و صوت” کو بدعت اور باطل کہا۔
  • لہٰذا یہ الزام کہ ابن تیمیہ قرآن کو قدیم مانتے تھے یا حرف و صوت کا انکار کرتے تھے، سراسر جھوٹ اور افتراء ہے۔

✿ اعتراض 3: امام ابن تیمیہ نے استواء کے مسئلے میں تفویض (المعنى) کیا

مخالفین کے مطابق حافظ ابن حجر نے الدرر الكامنة میں یہ عبارت نقل کی:

وأن قوله {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} ليس على ظاهره ولا أعلم كنه المراد به بل لا يعلمه إلا الله.

📌 ترجمہ: "آیت {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} اپنے ظاہر پر نہیں ہے۔ میں اس کے حقیقی مفہوم کو نہیں جانتا، بلکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔”

اس عبارت سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ امام ابن تیمیہ نے استواء کے بارے میں تفویض المعنى اختیار کیا اور کہا کہ ہمیں معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے۔

◈ الجواب

  1. یہ نسبت غیر ثابت اور بے اصل ہے:
    • جیسا کہ ابن عبدالہادی (م 744ھ) نے وضاحت کی، بعض مخالفین نے ابن تیمیہ کے کلام میں تحریف کی اور ان کے اقوال کو بگاڑ کر پیش کیا۔

    النص:

    واختلفت نقول المخالفين للمجلس، وحرفوا مقالة الشيخ على غير موضعها، وشنعوا بأنه رجع عن عقيدته، فالله المستعان.
    (العقود الدرية لابن عبدالهادي)

    📌 ترجمہ: "مخالفین نے مجلس میں ہونے والی گفتگو کو مختلف طریقوں سے نقل کیا، شیخ کے کلام کو اس کے مقام سے ہٹا دیا، اور مشہور کیا کہ شیخ نے اپنے عقیدے سے رجوع کر لیا ہے۔ اللہ ہی مددگار ہے۔”

  1. ابن تیمیہ کا واضح موقف (امام مالک کا منہج):
    ابن تیمیہ نے استواء کے بارے میں بالکل وہی کہا جو امام مالک، امام ربیعہ اور سفیان بن عیینہ وغیرہ کا قول تھا:النص:

    الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة.
    (العقود الدرية لابن عبدالهادي)

    📌 ترجمہ: "استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”

    ➡️ یعنی استواء کا معنی (عربی لغت کے اعتبار سے) معلوم ہے، مگر اللہ نے کس طرح استواء فرمایا یہ ہماری عقل سے باہر ہے۔

  1. ابن تیمیہ کی مزید وضاحت:
    انہوں نے بیان کیا کہ استواء کے بارے میں تین اقسام کے اقوال ہیں:
    • استواء کو مخلوق کی طرح ماننا: یہ مشبہہ کا باطل مذہب ہے۔
    • استواء کو بالکل ہی رد کر دینا اور اس کا انکار کرنا: یہ جہمیہ کا باطل مذہب ہے۔
    • استواء کو اس کے ظاہر پر ماننا، مگر کیفیت اللہ کے سپرد کرنا: یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔

    (مجموع الفتاوى 5/199)

✿ نتیجہ

  • امام ابن تیمیہ نے کبھی استواء کے معنی کو نامعلوم (تفویض المعنى) نہیں کہا۔
  • ان کا منہج بالکل وہی تھا جو امام مالکؒ اور دیگر سلف کا تھا: استواء معلوم، کیفیت مجہول۔
  • مخالفین نے ان کے کلام میں تحریف کی اور ان پر جھوٹ باندھا۔

 ابن عبدالہادی المقدسی کی وضاحت

امام ابن عبدالہادی المقدسی (م 744ھ) جو امام ابن تیمیہ کے شاگرد تھے، انہوں نے اپنی کتاب العقود الدرية میں ان مجالس کا تفصیلی ذکر کیا ہے جن میں ابن تیمیہ پر الزامات لگائے گئے تھے۔

النص:

إحضار الشيخ بمجلس نائب السلطنة ومناقشته في العقيدة… واختلفت نقول المخالفين للمجلس وحرفوا مقالة الشيخ على غير موضعها، وشنع ابن الوكيل وأصحابه بأن الشيخ قد رجع عن عقيدته، فالله المستعان… واعتقاد أهل السنة والجماعة الإيمان بما وصف به نفسه، وما وصفه به رسوله من غير تحريف ولا تعطيل، ولا تكييف ولا تمثيل. وأن القرآن كلام الله غير مخلوق. وقال ربيعة ومالك وابن عيينة وغيرهم: الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة.
(العقود الدرية لابن عبدالهادي، ص 364)

📌 ترجمہ:
"شیخ (ابن تیمیہ) کو نائب السلطنة کی مجلس میں بلایا گیا اور ان سے عقیدہ پر مناقشہ کیا گیا۔ مخالفین نے ان کے کلام کو بگاڑ دیا اور مشہور کیا کہ شیخ نے اپنے عقیدے سے رجوع کر لیا ہے۔ اللہ ہی مددگار ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی ان صفات پر ایمان لاتے ہیں جن کو اللہ نے اپنی ذات کے لیے بیان کیا ہے یا رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے لیے بیان کیا ہے، بغیر تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے، غیر مخلوق ہے۔ ربیعہ، امام مالک، ابن عیینہ اور دیگر نے کہا: استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”

✿ اہم نکات

  1. ابن عبدالہادی کی شہادت سے ثابت ہوا کہ ابن تیمیہ نے اپنا عقیدہ بالکل واضح طور پر اہل سنت کے عقیدے کے مطابق بیان کیا۔
  2. انہوں نے قرآن کے بارے میں کہا: یہ اللہ کا کلام ہے، غیر مخلوق ہے۔
  3. استواء کے بارے میں وہی کہا جو امام مالک اور سلف صالحین کا قول تھا: استواء معلوم، کیفیت مجہول، ایمان واجب، سوال بدعت۔

✿ نتیجہ

مخالفین کا یہ پروپیگنڈہ کہ ابن تیمیہ نے قید سے نکلنے کے لیے اپنے عقیدے سے رجوع کیا یا استواء کے بارے میں تفویض المعنى اختیار کیا، سراسر باطل ہے۔ ابن عبدالہادی جیسے ثقہ شاگرد نے واضح کر دیا کہ یہ الزامات جھوٹ اور تحریف پر مبنی تھے۔

امام ابن تیمیہ کی وضاحت: استواء کے تین اقسام

امام ابن تیمیہؒ نے استواء کے مسئلے کو تفصیل سے واضح کرتے ہوئے تین مختلف اقسام بیان کیں، تاکہ صحیح اور باطل مناہج کے درمیان فرق کیا جا سکے۔

النص:

فالأقسام ثلاثة في قوله: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} ونحوه. أن يُقال: استواء كاستواء المخلوق، أو يُفسَّر باستواء مستلزم حدوثًا أو نقصًا، فهذا الذي يحكي عن الضلال المشبهة والمجسمة، وهو باطل قطعًا بالقرآن والعقل.
(مجموع الفتاوى 5/199)

📌 ترجمہ:
"{الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} کے بارے میں تین اقسام ہیں:

  1. یہ کہا جائے کہ استواء مخلوق کے استواء کی طرح ہے، یا ایسی تفسیر کی جائے جس سے حادث یا نقص لازم آتا ہو؛ یہ مشبہہ اور مجسمہ گمراہوں کا مذہب ہے، اور یہ قرآن اور عقل دونوں سے باطل ہے۔”

النص:

وأما أن يقال: ما ثم استواء حقيقي أصلًا، ولا على العرش إله، ولا فوق السماوات رب، فهذا مذهب الضالة الجهمية المعطلة، وهو باطل قطعًا بما عُلم بالاضطرار من دين الإسلام…
(مجموع الفتاوى 5/200)

📌 ترجمہ:
"یہ کہا جائے کہ کوئی حقیقی استواء ہے ہی نہیں، نہ عرش پر کوئی الٰہ ہے، نہ آسمانوں کے اوپر کوئی رب؛ تو یہ جہمیہ معطلہ کا مذہب ہے، جو دینِ اسلام کی بدیہی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ بھی قطعاً باطل ہے۔”

النص:

بل استوى سبحانه على العرش على الوجه الذي يليق بجلاله ويناسب كبرياءه، وأنه فوق سمواته على عرشه، بائن من خلقه… والاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة.
(مجموع الفتاوى 5/201)

📌 ترجمہ:
"بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جلال اور کبریائی کے شایانِ شان طریقے پر عرش پر مستوی ہے۔ وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے، آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے۔ استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان واجب ہے، اور اس کے بارے میں سوال بدعت ہے۔”

✿ نتیجہ

  • مشبہہ اور مجسمہ کا مذہب: اللہ کے استواء کو مخلوق کی طرح قرار دینا — باطل۔
  • جہمیہ کا مذہب: استواء کا انکار کر دینا اور کہنا کہ اوپر کوئی رب نہیں — باطل۔
  • اہل سنت کا مذہب: استواء کو اس کے ظاہر پر ماننا، مگر کیفیت اللہ کے سپرد کرنا — یہی حق ہے۔

قرآن کے قدیم ہونے کے مسئلے پر ابن تیمیہ کی وضاحت

مخالفین کا دعویٰ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے قرآن کو قدیم مانا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس نظریے کو رد کیا جو جہمیہ اور بعض متکلمین نے پیش کیا تھا۔

النص:

أن السلف قالوا: القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولم يقل أحد منهم إن نفس الكلام المعيَّن قديم، ولا قال أحد منهم: القرآن قديم.
(مجموع الفتاوى 12/566)

📌 ترجمہ:
"سلف نے کہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، نازل کردہ ہے اور غیر مخلوق ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ معیَّن کلام خود قدیم ہے اور نہ ہی یہ کہا کہ قرآن قدیم ہے۔”

النص:

وإذا كان الله قد تكلم بالقرآن بمشيئته، كان القرآن كلامه، وكان منزّلًا منه غير مخلوق، ولم يكن مع ذلك أزليًّا قديمًا بقدم الله.
(مجموع الفتاوى 12/567)

📌 ترجمہ:
"اللہ نے قرآن کو اپنی مشیت کے ساتھ کلام کیا، تو قرآن اس کا کلام ہے، اس کی طرف سے نازل کردہ ہے اور غیر مخلوق ہے، مگر یہ اللہ کی ذات کی طرح قدیم و ازلی نہیں ہے۔”

النص:

كمن قال: إن الله لا يتكلم بحرف ولا صوت، فإنه مبتدع منكر للسنة.
(مجموع الفتاوى 12/560)

📌 ترجمہ:
"جو یہ کہے کہ اللہ حروف اور آواز کے بغیر کلام کرتا ہے، وہ بدعتی ہے اور سنت کا منکر ہے۔”

✿ خلاصہ

  1. ابن تیمیہ نے ہمیشہ کہا: قرآن اللہ کا کلام ہے، غیر مخلوق ہے۔
  2. لیکن قرآن کو اللہ کی ذات کی طرح قدیم و ازلی کہنا باطل جہمی فلسفہ ہے۔
  3. ابن تیمیہ نے واضح کیا کہ اللہ نے اپنی مشیت سے قرآن کلام کیا، لہٰذا یہ غیر مخلوق ہے مگر قدیم بالذات نہیں۔

اہل بدعت کی تحریفات اور ابن عبدالہادی کی شہادت

امام ابن عبدالہادی المقدسی (م 744ھ) نے اپنی کتاب العقود الدرية میں وضاحت کی ہے کہ اہل بدعت نے کس طرح امام ابن تیمیہ کے کلام میں تحریف کی اور ان پر جھوٹے الزامات لگائے۔

النص:

اختلفت نقول المخالفين للمجلس، وحرفوا مقالة الشيخ على غير موضعها، وشنع ابن الوكيل وأصحابه بأن الشيخ قد رجع عن عقيدته، فالله المستعان.
(العقود الدرية، ص 364)

📌 ترجمہ:
"مخالفین نے مجلس کی گفتگو کو مختلف طریقوں سے نقل کیا، شیخ کے کلام کو اس کے مقام سے ہٹا دیا اور ابن الوکیل اور اس کے ساتھیوں نے یہ مشہور کیا کہ شیخ نے اپنے عقیدے سے رجوع کر لیا ہے۔ اللہ ہی مددگار ہے۔”

◈ وضاحت

  1. ابن عبدالہادی کی شہادت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
    • مخالفین نے ابن تیمیہ کے کلام کو بگاڑ کر غلط مفہوم نکالا۔
    • عوام میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ابن تیمیہ نے اپنے عقیدے سے رجوع کیا۔
    • حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے منہج کو بیان کیا اور اس سے رجوع نہیں کیا۔
  2. یہی وجہ ہے کہ:
    • کبھی کہا گیا کہ ابن تیمیہ نے خود کو اشعری کہا۔
    • کبھی کہا گیا کہ قرآن کو قدیم مانا اور حرف و صوت کا انکار کیا۔
    • اور کبھی کہا گیا کہ استواء کے مسئلے میں تفویض کی۔

    ➡️ یہ سب الزامات اسی تحریف اور جھوٹے پروپیگنڈے کی پیداوار ہیں۔

✿ نتیجہ

اہل بدعت نے امام ابن تیمیہ کے کلام میں تحریف کرکے ان پر الزامات لگائے۔ لیکن ابن عبدالہادی جیسے ثقہ شاگرد کی شہادت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ سب افتراءات تھے اور حقیقت کے خلاف تھے۔

مخالفین کا باہمی تضاد

اہلِ بدعت اور خصوصاً دیوبندی و اشعری مکتب فکر کے اندر امام ابن تیمیہ پر الزامات میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔

  1. ایک الزام:
    بعض مخالفین یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ نے قرآن کو بغیر حرف و صوت مانا اور جہمیہ و اشاعرہ کی طرح کہا کہ یہ صرف ایک قدیم معنی ہے۔
  2. دوسرا الزام (انور شاہ کشمیری):
    دیوبندی مکتب کے بڑے عالم مولانا انور شاہ کشمیری (م 1352ھ) نے ابن تیمیہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ اللہ کے کلام کو باصوت و بالحروف مانتے تھے، اور کہا کہ یہ عقیدہ کفر ہے!النص:

    "واضح رہے کہ حافظ ابن تیمیہ بھی قیام حوادث، حرف و صوت وغیرہ ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مانتے ہیں۔ اور جس نے اللہ کو متکلم باصوت والحروف کہا، اس نے خدا کے لیے جسمیت ثابت کی جو کفر ہے۔”
    (ملفوظات محدث کشمیری)

◈ تضاد کی وضاحت

  • ایک طرف مخالفین یہ جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے حرف و صوت کا انکار کیا۔
  • دوسری طرف انہی کے اپنے اکابر (انور شاہ کشمیری) صاف کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے حرف و صوت کو مانا اور اسی بنیاد پر ان پر کفر کا فتویٰ جڑ دیا۔

➡️ یہ صریح تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن تیمیہ پر لگائے گئے الزامات اصل میں جھوٹ، پروپیگنڈے اور باہمی اختلافات پر مبنی ہیں۔

✿ نتیجہ

  • اگر طاہر مقبول دیوبندی کا الزام صحیح مانا جائے (کہ ابن تیمیہ نے حرف و صوت کا انکار کیا) تو انور شاہ کشمیری جھوٹے قرار پاتے ہیں۔
  • اور اگر انور شاہ کشمیری کی بات صحیح مان لی جائے (کہ ابن تیمیہ حرف و صوت مانتے تھے) تو طاہر مقبول دیوبندی کا الزام باطل ہو جاتا ہے۔
  • بہرحال دونوں میں سے کوئی بھی الزام امام ابن تیمیہ کی اصل حقیقت کو نقصان نہیں پہنچاتا، کیونکہ ان کا موقف ہمیشہ واضح اور سلف کے مطابق رہا۔

✿ خلاصہ اور حتمی نتیجہ

پوری تحقیق کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابن تیمیہؒ پر لگائے گئے اعتراضات اور الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔

1. اعتراض: "أنا أشعري”

  • اس کی کوئی سند موجود نہیں۔
  • امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں صاف کہا: اشعری کہلانا بدعت ہے۔

2. اعتراض: قرآن قدیم ہے اور حرف و صوت کا انکار

  • امام ابن تیمیہ نے ہمیشہ جہمیہ اور اشاعرہ کے اس نظریے کی تردید کی۔
  • انہوں نے کہا: قرآن اللہ کا کلام ہے، حروف و صوت کے ساتھ، غیر مخلوق۔
  • سلف میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ قرآن قدیم ہے۔

3. اعتراض: استواء میں تفویض (المعنى)

  • یہ بھی باطل نسبت ہے۔
  • ابن تیمیہ نے امام مالک اور ربیعہ کا قول نقل کیا: استواء معلوم، کیفیت مجہول، ایمان واجب، سوال بدعت۔

4. اہل بدعت کی تحریفات

  • ابن عبدالہادی نے وضاحت کی کہ مخالفین نے ابن تیمیہ کے کلام کو بگاڑ کر جھوٹے الزامات لگائے۔
  • حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ ہمیشہ اہل سنت کے منہج پر قائم رہے۔

5. مخالفین کا باہمی تضاد

  • بعض کہتے ہیں: ابن تیمیہ نے حرف و صوت کا انکار کیا۔
  • انور شاہ کشمیری کہتے ہیں: ابن تیمیہ نے حرف و صوت مانے اور یہ کفر ہے۔
  • یہ تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ الزامات جھوٹ اور پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔

✿ حتمی نتیجہ

  • امام ابن تیمیہؒ کا عقیدہ وہی تھا جو جمہور سلف صالحین کا تھا۔
  • وہ ہمیشہ کہتے رہے: قرآن اللہ کا کلام ہے، غیر مخلوق ہے، حروف و صوت کے ساتھ ہے۔ استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے۔
  • ان پر رجوع، تاویل یا اشعریت کا الزام صرف اہل بدعت کی تحریفات ہیں۔

📌 لہٰذا امام ابن تیمیہ پر لگائے گئے یہ اعتراضات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ ان کا منہج اہل سنت والجماعت اور سلف صالحین کے منہج کا عین عکس ہے۔

اہم حوالاجات کے سکین

قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 01 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 02 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 03 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 04 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 05 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 06 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 07 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 08 قرآن، استواء، اشعری اور صفاتِ باری تعالیٰ: امام ابن تیمیہ کا منہج اور مخالفین کے الزامات – 09

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے