یہ مضمون دراصل اس شبہے کا علمی جواب ہے جو ابن حجر ہیتمی (م 974ھ) نامی شخص نے اپنی کتاب تحفة المحتاج میں بیان کیا۔
انہوں نے:
- "نزول باری تعالیٰ” کی صحیح اور مشہور احادیث کی تاویل کی،
- اس کو "اللہ کے حکم کے نزول” پر محمول کیا،
- اور اس بنیاد پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ پر طعن کرنے کے لیے ابن جماعہ کا قول نقل کیا۔
اہلِ سنت والجماعت کا منہج اس مسئلے میں واضح ہے:
- اللہ تعالیٰ کا نزول ہر رات ثابت ہے،
- اس پر ایمان لانا واجب ہے،
- مگر کیفیت (کیسے؟) اللہ کے سپرد ہے،
- اور اس کا انکار صرف معتزلہ اور جہمیہ جیسے گمراہ فرقے کرتے ہیں۔
✿ دعویٰ مخالف: ابن حجر ہیتمی
ابن حجر ہیتمی نے کہا:
«ومعنى ينزل ربنا ينزل أمره كما أوله به الخلف وبعض أكابر السلف، ولا التفات إلى ما شنّع به على المؤوّلين بعض من عدم التوفيق، ومن ثم قال ابن جماعة في ابن تيمية رأسهم إنه عبد أضله الله وخذله.»
(تحفة المحتاج)
📌 اردو ترجمہ:
"ہمارے بعض متاخرین اور بعض سلف نے اللہ کے نزول سے مراد اللہ کے حکم کا نزول لیا ہے۔ مؤولین پر جو الزام بعض بے توفیق لوگوں نے لگایا اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ ابن جماعہ نے ابن تیمیہ کے بارے میں کہا کہ وہ ایسا بندہ ہے جسے اللہ نے گمراہ اور رسوا کیا۔”
◈ الجواب
- یہ قول بذاتِ خود منقطع اور بے سند ہے، کیونکہ:
- ابن جماعہ کی وفات 733ھ میں ہوئی۔
- ابن حجر ہیتمی کی پیدائش 905ھ میں ہوئی۔
- دونوں کے درمیان 172 سال کا فاصلہ ہے۔
لہٰذا یہ محض نقل ہے، اس کی کوئی سند نہیں۔
- ابن حجر ہیتمی کا یہ کہنا کہ "نزول کو ظاہر پر لینے والا صرف ابن تیمیہ ہے” بالکل غلط ہے۔
- حقیقت یہ ہے کہ نزول کے اثبات پر سلف صالحین کا اجماع ہے۔
- امام مالک، امام سفیان بن عیینہ، امام عبداللہ بن مبارک، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام دارمی، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ سب نے یہی عقیدہ بیان کیا۔
- ابن تیمیہؒ نے کوئی نیا عقیدہ پیش نہیں کیا بلکہ وہی منہج اختیار کیا جو صحابہ اور ائمہ سلف کا تھا:
- "نزول کو ماننا، مگر کیفیت بیان نہ کرنا۔”
نزول باری تعالٰی سے متعلق سلف صالحین کا منہج
زیل میں سلف صالحین کے واضح اقوال پیش خدمت ہیں۔ یہ اقوال اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ نزول باری تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کا انکار صرف گمراہ فرقے یعنی معتزلہ اور جہمیہ کرتے ہیں۔
① امام ابوبکر الآجری البغدادی (م 360ھ)
النص:
بَابُ الْإِيمَانِ وَالتَّصْدِيقِ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ … وَلا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا الْمُعْتَزِلَةُ، وَأَمَّا أَهْلُ الْحَقِّ فَيَقُولُونَ: الْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ بِلَا كَيْفٍ.
(الشريعة للآجري)
📌 ترجمہ:
آجرّی کہتے ہیں: "اس بات پر ایمان اور تصدیق واجب ہے کہ اللہ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ کسی مسلمان کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ کیسے نزول فرماتا ہے۔ اس کا انکار صرف معتزلہ کرتے ہیں۔ اہلِ حق کا کہنا ہے کہ اس پر ایمان واجب ہے بغیر کیفیت بیان کیے۔”
② امام ابن عبدالبر الاندلسی (م 463ھ)
النص:
والذي عليه جمهور أئمة أهل السنة أنهم يقولون: ينزل كما قال رسول الله ﷺ، ويصدقون بهذا الحديث ولا يكيفون. والقول في كيفية النزول كالقول في كيفية الاستواء والمجيء، والحجة في ذلك واحدة.
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)
📌 ترجمہ:
"جمہور ائمہ اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ نزول فرماتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اہل سنت اس حدیث کی تصدیق کرتے ہیں مگر کیفیت بیان نہیں کرتے۔ نزول کی کیفیت کے بارے میں وہی اصول ہے جو استواء علی العرش اور اللہ کے مجی (آنے) کی کیفیت کے بارے میں ہے۔ دلیل ان سب میں ایک ہی ہے۔”
③ امام اسماعیل بن محمد الاصبھانی (م 535ھ)
النص:
ومن مذهب أهل السنة: الإيمان بجميع ما ثبت عن النبي ﷺ في صفة الله تعالى، كحديث: "ينزل الله تعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا”.
(الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة)
📌 ترجمہ:
اہلِ سنت کے عقیدے میں یہ بات شامل ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں جو کچھ نبی ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ مثلاً یہ حدیث کہ "اللہ تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔”
④ امام اسحاق بن راہویہ (م 238ھ)
النص:
… سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيَّ، يَقُولُ: … فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ (المبتدع): كَفَرْتُ بِرَبٍّ يَنْزِلُ مِنْ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ. فَقُلْتُ (إسحاق): آمَنْتُ بِرَبٍّ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ.
(الأسماء والصفات للبیہقي)
📌 ترجمہ:
امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: "میں ایک بدعتی کے ساتھ امیر کی مجلس میں تھا۔ بدعتی نے کہا: میں ایسے رب کا انکار کرتا ہوں جو ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر نزول کرتا ہے۔ تو میں نے جواب دیا: میں اس رب پر ایمان لاتا ہوں جو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔”
⑤ امام ابن خزیمہ (م 311ھ)
النص:
باب ذكر أخبار ثابتة السند صحيحة … في نزول الرب جل وعلا إلى السماء الدنيا كل ليلة، … فنحن قائلون مصدقون بما في هذه الأخبار من ذكر النزول غير متكلفين القول بصفته أو بكيفيته، إذ النبي ﷺ لم يصف لنا كيفية النزول.
(كتاب التوحيد لابن خزيمة)
📌 ترجمہ:
"نزول باری تعالیٰ کی تمام صحیح اور ثابت شدہ روایات پر ہم ایمان لاتے ہیں، ان کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کو مانتے ہیں، لیکن نزول کی کیفیت بیان نہیں کرتے کیونکہ نبی ﷺ نے نزول کی کوئی کیفیت بیان نہیں فرمائی۔”
⑥ امام ترمذی (م 279ھ)
النص:
… وقد قال غير واحد من أهل العلم في هذا الحديث وما يشبهه من الروايات من الصفات: ونزول الرب تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا. قالوا: قد تثبت الروايات في هذا ويؤمن بها ولا يقال: كيف. هكذا روي عن مالك، وسفيان بن عيينة، وعبد الله بن المبارك أنهم قالوا في هذه الأحاديث: أمِرّوها بلا كيف.
(سنن الترمذی)
📌 ترجمہ:
امام ترمذی فرماتے ہیں: "اس حدیث اور صفات باری تعالیٰ سے متعلق دیگر احادیث کے بارے میں متعدد اہل علم نے کہا ہے کہ یہ روایات ثابت ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے، مگر کیفیت بیان نہیں کی جائے گی۔ امام مالک، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک کا بھی یہی قول ہے کہ ان احادیث کو بغیر کیفیت بیان کیے مانا جائے۔”
⑧ امام ابو جعفر الترمذی (م 295ھ)
النص:
… سُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ التِّرْمِذِيُّ عَنْ حَدِيثِ النُّزُولِ فَقَالَ: النُّزُولُ مَعْقُولٌ، وَالْكَيْفُ مَجْهُولٌ، وَالْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْهُ بِدْعَةٌ.
(تاريخ بغداد)
📌 ترجمہ:
امام ابو جعفر الترمذی سے حدیثِ نزول کے بارے میں سوال ہوا کہ نزول کیسے ہوتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: "نزول معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان واجب ہے، اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”
⑨ امام ابن ابی یعلی (م 526ھ)
النص:
… وأنه ينزل كل ليلة إلى سماء الدنيا بقول رسول الله ﷺ: "ينزل ربنا كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر”.
(الاعتقاد لابن أبي يعلى)
📌 ترجمہ:
ابن ابی یعلی لکھتے ہیں: "اللہ تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔”
⑩ امام یحییٰ بن معین (م 233ھ)
النص:
إذا قال لك الجهمي: كيف ينزل؟ فقل: كيف صعد؟
(الإبانة الكبرى لابن بطة)
📌 ترجمہ:
امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: "جب کوئی جہمی تم سے پوچھے کہ اللہ کیسے نزول کرتا ہے، تو تم اس سے پوچھو کہ وہ (پہلے) کیسے بلند ہوا؟” (یعنی جس طرح استواء کی کیفیت معلوم نہیں، اسی طرح نزول کی کیفیت بھی مجہول ہے۔)
⑪ خطیب بغدادی (م 463ھ)
النص:
أما الكلام في الصفات فإن ما روي منها في السنن الصحاح مذهب السلف إثباتها، وإجراؤها على ظاهرها، ونفي الكيفية والتشبيه عنها.
(سير أعلام النبلاء)
📌 ترجمہ:
خطیب بغدادی فرماتے ہیں: "صفات کے بارے میں جو کچھ صحیح احادیث میں آیا ہے، سلف کا مذہب یہی ہے کہ ان کا اثبات کیا جائے، انہیں ظاہر پر رکھا جائے اور کیفیت و تشبیہ کی نفی کی جائے۔”
⑫ حافظ ذہبی (م 748ھ)
النص:
… فالنزول والكلام والسمع والبصر والعلم والاستواء عبارات جلية واضحة للسامع، فإذا اتصف بها من ليس كمثله شيء فالصفة تابعة للموصوف، وكيفية ذلك مجهولة عند البشر.
(العلو للعلي الغفار)
📌 ترجمہ:
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "نزول، کلام، سننا، دیکھنا، علم اور استواء یہ سب الفاظ واضح ہیں اور سب کو سمجھ آتے ہیں۔ لیکن جب یہ صفات اس ذات کے لیے ثابت ہوں جس کی کوئی مثل نہیں، تو صفت کا اثبات ہوگا مگر اس کی کیفیت انسانوں کے لیے مجہول ہے۔”
⑬ امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (م 478ھ)
النص:
حديث النزول قد ثبت عن رسول الله ﷺ من وجوه صحيحة، وورد في التنزيل ما يصدقه وهو قوله تعالى: {وجاء ربك والملك صفا صفا}. والمجيء والنزول صفتان من صفات الله تعالى بلا تشبيه.
(الأسماء والصفات للبيهقي)
📌 ترجمہ:
امام جوینی فرماتے ہیں: "نزول کی حدیث صحیح سندوں سے ثابت ہے اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق موجود ہے: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا}۔ اللہ کے آنے اور نزول دونوں اس کی صفات ہیں، مگر بغیر تشبیہ کے۔”
⑭ ابو زکریا السلماسی (م 550ھ)
النص:
وذهب أئمة السلف إلى الانكفاف عن التأويل وإجراء الظواهر على مواردها، وتفويض معانيها إلى الرب تعالى.
(منازل الأئمة الأربعة)
📌 ترجمہ:
"ائمہ سلف کا منہج یہ ہے کہ صفات کی تاویل سے بچا جائے، احادیث کو ان کے ظاہر پر رکھا جائے اور معانی کا علم اللہ کے سپرد کیا جائے۔”
⑮ ابو سلیمان الخطابی (م 388ھ)
النص:
مذاهب السلف إثباتها وإجراؤها على ظواهرها، ونفي الكيفية والتشبيه عنها.
(العرش للذهبي)
📌 ترجمہ:
ابو سلیمان الخطابی فرماتے ہیں: "سلف کا مذہب یہ ہے کہ صفات کو ثابت کیا جائے، ان کو ظاہر پر رکھا جائے، اور ان سے کیفیت اور تشبیہ کو دور کیا جائے۔”
جہمیہ و معتزلہ کی باطل تاویل کا رد
① امام ابوبکر الآجری (م 360ھ)
النص:
… ولا يرد هذا إلا المعتزلة، وأما أهل الحق فيقولون: الإيمان به واجب بلا كيف.
(الشريعة للآجري)
📌 ترجمہ:
"نزول باری تعالیٰ کا انکار صرف معتزلہ کرتے ہیں۔ اہلِ حق کا کہنا ہے کہ اس پر ایمان واجب ہے بغیر کیفیت بیان کیے۔”
② امام ترمذی (م 279ھ)
النص:
… وهكذا قول أهل العلم من أهل السنة والجماعة، وأما الجهمية فأنكرت هذه الروايات وقالوا: هذا تشبيه.
(سنن الترمذی)
📌 ترجمہ:
"اہلِ سنت والجماعت کا کہنا ہے کہ یہ روایات ثابت ہیں اور ان پر ایمان واجب ہے۔ جبکہ جہمیہ نے انکار کیا اور کہا کہ یہ تشبیہ ہے۔”
③ امام ابو سعید الدارمی (م 280ھ)
النص:
… فادعى المعارض أن الله لا ينزل بنفسه، إنما ينزل أمره ورحمته… فقيل لهذا المعارض: هذا أيضًا من حجج النساء والصبيان… لأن أمر الله ورحمته ينزل في كل ساعة… فما بال النبي ﷺ يحد لنزوله الليل دون النهار؟
(نقض عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي)
📌 ترجمہ:
امام دارمی نے جہمی کا رد کرتے ہوئے کہا: "مخالف نے دعویٰ کیا کہ اللہ بذاتہ نہیں اترتا بلکہ اس کا حکم اور رحمت اترتی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا حکم اور رحمت تو ہر وقت نازل ہوتی رہتی ہے، پھر نبی ﷺ نے نزول کو خاص رات کے آخری حصے کے ساتھ کیوں بیان کیا؟ یہ تاویل سب سے باطل تاویلات میں سے ہے۔”
④ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728ھ)
النص:
… وأما قول النافي: إنما ينزل أمره ورحمته، فهذا غلط…
(مجموع الفتاوی)
📌 ترجمہ:
ابن تیمیہ نے کہا: "یہ کہنا کہ اللہ کے نزول سے مراد اس کا حکم اور رحمت کا نزول ہے، یہ غلط ہے۔”
⑤ امام محمد بن جریر الطبری (م 310ھ)
النص:
… ولا نقول: معنى ذلك ينزل أمره، بل نقول: أمره نازل إليها كل لحظة… فلا وجه لخصوص نزول أمره إليها وقتًا دون وقت.
(التبصير في معالم الدين)
📌 ترجمہ:
امام طبری فرماتے ہیں: "ہم یہ نہیں کہتے کہ نزول سے مراد اللہ کے حکم کا نزول ہے، کیونکہ اللہ کا حکم تو ہر لمحہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اگر مراد حکم کا نزول ہوتا تو اس کے لیے رات کے ایک حصے کی تخصیص کیوں کی جاتی؟”
⑥ ابن عبدالبر الاندلسی (م 463ھ)
النص:
وقد قال قوم: إنه ينزل أمره وتنزل رحمته ونعمتُه، وهذا ليس بشيء، لأن أمره بما شاء من رحمته ونقمته ينزل بالليل والنهار بلا توقيت ثلث الليل ولا غيره.
(الاستذكار لابن عبد البر)
📌 ترجمہ:
"کچھ لوگوں نے کہا کہ نزول سے مراد اللہ کا حکم یا رحمت نازل ہونا ہے۔ لیکن یہ بات بے اصل ہے، کیونکہ اللہ کا حکم دن اور رات ہر وقت نازل ہوتا رہتا ہے، اس کو خاص تہائی رات کے ساتھ منسوب کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔”
➡️ اگرچہ ابن عبدالبر نے بعض مقامات پر "نزول بذاتہ” کو مہجور کہا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ جمہور اہل سنت کا منہج وہی ہے جو حدیث کے ظاہر سے ثابت ہے: نزول بلا کیفیت۔
⑦ حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ)
النص (پہلا قول):
وقد اختلف في معنى النزول على أقوال، فمنهم من حمله على ظاهره وهم المشبهة.
(فتح الباري 3/…)
📌 ترجمہ:
"نزول کے معنی میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کو ظاہر پر محمول کیا، اور وہ مشبہہ ہیں۔”
➡️ یہ حافظ ابن حجر کا ابتدائی قول تھا جو علمی تسامح پر مبنی تھا۔
النص (رجوع):
وما يصح من السنن، وذهب أئمة السلف إلى الانكفاف عن التأويل، وإجراء الظواهر على مواردها، وتفويض معانيها إلى الله تعالى.
(فتح الباري 11/…)
📌 ترجمہ:
"جو احادیث صحیح ہیں، ائمہ سلف نے ان میں تاویل سے رکنے کو ترجیح دی ہے، اور ان کے ظاہر کو برقرار رکھا ہے، اور معانی کو اللہ کے سپرد کیا ہے۔”
➡️ اس سے ظاہر ہے کہ حافظ ابن حجر نے اپنے پہلے تسامح والے قول سے رجوع کیا اور سلف کے منہج کی طرف لوٹ گئے۔
اقوالِ ائمہ سلف صفات باری تعالیٰ کے بارے میں
🔴 01 – خطیب بغدادی (م 463ھ):
النص:
أَمَّا الكَلاَمُ فِي الصِّفَات فَإِنَّ مَا رُوِيَ مِنْهَا فِي السُّنَنِ الصِّحَاح مَذْهَبُ السَّلَفِ إِثْبَاتُهَا، وَإِجْرَاؤُهَا عَلَى ظَوَاهِرِهَا، وَنَفْيُ الكَيْفِيَّةِ وَالتَّشْبِيهِ عَنْهَا.
(سير أعلام النبلاء، سند صحیح)
📌 ترجمہ:
صفات باری تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ صحیح احادیث میں آیا ہے، سلف کا مذہب یہ ہے کہ ان کا اثبات کیا جائے، انہیں ان کے ظاہر پر رکھا جائے، اور ان سے کیفیت اور تشبیہ کو دور کیا جائے۔
🔴 02 – امام ابو عثمان الصابونی (م 449ھ):
النص:
ويمرون الخبر الصحيح الوارد بذكره على ظاهره، ويكلون علمه إلى الله.
(عقيدة السلف أصحاب الحديث)
📌 ترجمہ:
اہلِ حدیث صحیح احادیث کو ان کے ظاہر پر رکھتے ہیں اور ان کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
🔴 03 – امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (م 478ھ):
النص:
وذهب أئمة السلف إلى الانكفاف عن التأويل، وإجراء الظواهر على مواردها، وتفويض معانيها إلى الرب تعالى.
(العقيدة النظامية في الأركان الإسلامية)
📌 ترجمہ:
ائمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ صفات کی تاویل سے رک جائیں، انہیں ان کے ظاہر پر رکھیں اور معانی کو اللہ کے سپرد کریں۔
🔴 04 – ابو زکریا السلماسی (م 550ھ):
النص:
وذهب أئمة السلف إلى الانكفاف عن التأويل، وإجراء الظواهر على مواردها، وتفويض معانيها إلى الرب تعالى.
(منازل الأئمة الأربعة: أبو حنيفة ومالك والشافعي وأحمد)
📌 ترجمہ:
ائمہ سلف کا مذہب یہ تھا کہ صفات کی تاویل نہ کریں، ان کو ان کے ظاہر پر چلائیں اور معانی کا علم اللہ کے سپرد کریں۔
🔴 05 – ابو سلیمان الخطابی (م 388ھ):
النص:
مذاهب السلف إثباتها وإجراؤها على ظواهرها، ونفي الكيفية والتشبيه عنها.
(العرش للذهبي)
📌 ترجمہ:
سلف کا مذہب یہ ہے کہ صفات کو ثابت کیا جائے، ان کو ظاہر پر رکھا جائے اور ان سے کیفیت اور تشبیہ کو دور کیا جائے۔
✿ خلاصہ تحقیق
- ابن حجر ہیتمی نے نزول کو اللہ کے حکم کے نزول پر محمول کیا اور ابن تیمیہ پر طعن کے لیے ابن جماعہ کا قول نقل کیا۔ لیکن یہ نقل منقطع اور بے سند ہے، کیونکہ دونوں کے درمیان تقریباً 172 سال کا فاصلہ ہے۔
- نزول کو حکم یا رحمت کے نزول پر محمول کرنا جہمیہ، معتزلہ اور رافضہ کی تاویل ہے۔ سلف صالحین اور اہل حدیث نے ہمیشہ اس تاویل کو باطل اور مردود قرار دیا۔
- سلف صالحین کے ائمہ جیسے امام مالک، سفیان بن عیینہ، ابن المبارک، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام دارمی، امام طبری، امام ابن عبدالبر، خطیب بغدادی، حافظ ذہبی اور دیگر سب نے واضح کیا کہ:
- نزول باری تعالیٰ پر ایمان واجب ہے۔
- نزول کی کیفیت مجہول ہے۔
- اس کا انکار صرف جہمیہ و معتزلہ نے کیا۔
- حافظ ابن حجر عسقلانی نے اگرچہ ایک مقام پر تسامح سے نزول کے ظاہر پر ایمان رکھنے والوں کو "مشبہہ” کہا، لیکن بعد میں رجوع کرتے ہوئے سلف کے منہج کی تائید کی اور لکھا کہ ائمہ سلف تاویل سے رک گئے اور احادیث کو ظاہر پر رکھا۔
- اس بنا پر ابن تیمیہؒ پر طعن محض الزام ہے۔ وہ کسی نئے عقیدے کے قائل نہیں تھے بلکہ جمہور سلف صالحین کے اسی منہج کو بیان کرتے تھے: نزول کو ماننا، مگر کیفیت اللہ کے سپرد کرنا۔
✿ نتیجہ
- ابن حجر ہیتمی کا مؤقف باطل اور سلف کے خلاف ہے۔
- جمہور اہل سنت والجماعت کا منہج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔
- نزول کی کیفیت بیان نہیں کی جائے گی، کیونکہ نبی ﷺ نے بھی بیان نہیں کی۔
- اس عقیدے کو صرف جہمیہ اور معتزلہ نے رد کیا، اہل سنت ہمیشہ اس پر متفق رہے۔