چوری میں ہاتھ کاٹنے کی حدود اور حرز کی شرط
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جو شخص مکلّف و خود مختار ہو کر زیرحفاظت مال سے ربع دینار یا اس سے زیادہ چرا لے
لغوی وضاحت: لفظِ سَرِقه سے مراد ”چرائی ہوئی چیز ہے ۔“ باب سَرَقَ يَسْرِقُ (ضرب) اور باب اِسْتَرَق يَسْتَرِقُ (افتعال) چرانا ۔ سَارِق اور سَرُوق ”چور“ کو کہتے ہیں ۔
[المنجد: ص / 371 ، القاموس المحيط: ص / 704]
شرعی تعریف: کسی کا مال اس کی حفاظت کی جگہ سے چھپ کر لینے کے لیے آنا ۔
[القاموس المحيط: ص / 804 ، نيل الأوطار: 582/4]
➊ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کے متعلق سوال کیا جسے اس کی چراگاہ سے چرایا گیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
فيها ثمنها مرتين وضرب نكال وما أخذ من عطنه ففيه القطع إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن
”اسے دگنی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور عبرت کے لیے سزا بھی دی جائے گی اور جسے اس کے باڑے سے پکڑا جائے تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا جبکہ پکڑی ہوئی چیز ڈھال کی قیمت کو پہنچتی ہو ۔“
پھر اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! پھل اور جو کچھ خوشوں سے پکڑ لیا جائے (اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أخذ بفمه ولم يتخذ خبنة فليس عليه شيئ ومن احتمـل فـعـليـه القطع إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن
”جو شخص اسے اپنے منہ سے پکڑے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس پر کچھ (سرزنش ) نہیں اور جو اسے اٹھا کر لے جائے اس پر دگنی قیمت ادا کرنا لازم ہے اور عبرت کے لیے اسے سزا بھی دی جائے گی اور جو چیز (غلے کے ) ڈھیروں سے اٹھائی جائے تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا جبکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت (تین درہم ) کو پہنچتی ہو ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 2413 ، احمد: 180/2 ، ابو داود: 4390 ، كتاب الحدود: باب ما لا قطع فيه ، نسائي: 84/8 ، حاكم: 381/4 ، ترمذي: 1289 ، ابن ماجة: 2596 ، ابن الجارود: 828 ، بيهقي: 278/8 ، دارقطني: 236/4]
ثابت ہوا جس چیز کو حفاظت میں لیا گیا ہو اگرچہ اس کے ارد گرد دیوار نہ ہو ، اسے چرانے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا جیسا کہ غلے کے ڈھیر اور جانوروں کے باڑوں سے چرانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے اور ڈھال کی قیمت سے مراد تین درہم ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں موجود ہے ۔
[بخاري: 6797 ، مسلم: 1686]
➋ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ دیا اس نے ایک ڈھال چرائی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی ۔
[احمد: 80/2 ، مسلم: 1686 ، كتاب الحدود: باب دالسرقة ونصابها ، ابو داود: 4386 ، نسائي: 76/8]
ثابت ہوا کہ چور اگر کسی کے گھر کے علاوہ عام داخلے کی جگہ سے بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس کے لیے بند دروازوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اکثر علما اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھ کاٹنے کے لیے مسروقہ چیز کا حفاظت میں ہونا شرط ہے ۔ تاہم امام احمدؒ ، امام اسحاقؒ اور اہل ظاہر کا کہنا ہے کہ یہ شرط نہیں ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔
حضرت صفوان بن اُمیہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں اپنی چادر پر سویا ہوا تھا کہ اسے چوری کر لیا گیا ، پھر ہم نے چور کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کیا صرف ایک چادر کی وجہ سے (اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ) جس کی قیمت تیس درہم ہے ۔ میں نے یہ چادر اسے ہبہ کر دی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هلا كان قبل أن تاتيني به
”اسے میرے پاس لانے سے پہلے ایسا کیوں نہ کیا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3693 ، كتاب الحدود: باب فيمن سرق من حرز ، ابو داود: 4394 ، ابن ماجة: 2595 ، احمد: 466/6 ، نسائي: 69/8 ، موطا: 834/2 ، بدائع المنن للشافعي: 1509 ، حاكم: 380/4]
یہ دلیل درست نہیں کیونکہ مسجد خود ایک حفاظت کی جگہ ہے اس پر مستزادیہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ وہ چادر ان کے سر کے نیچے تھی ۔
[نيل الأوطار: 582/4]
یعنی چادر حفاظت میں تھی لٰہذا ثابت ہوا کہ ہاتھ کاٹنے کے لیے کسی بھی چیز کا حفاظت میں ہونا شرط ہے ۔
(احناف ) جو پھل ابھی درخت پر ہوں اور تر ہوں وہ محفوظ جگہ میں ہوں یا غیر محفوظ جگہ میں ، ان کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے ۔ پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ گوشت ، دودھ ، مشروبات ، روٹیاں وغیرہ جیسی کھانے کی اشیا میں بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے ۔
(جمہور) ہر محفوظ کی ہوئی چیز پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے خواہ اسے کاٹ لیا گیا ہو یا ابھی وہ درختوں پر ہی موجود ہو ۔
[سبل السلام: 1709/4 ، نيل الأوطار: 580/4]
(راجح) جمہور کا مؤقف برحق ہے کیونکہ گذشتہ تمام احادیث اس پر شاہد ہیں ۔
(شوکانیؒ) حرز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں مالک اپنی ملکیت کو محفوظ کرتا ہے یا ذخیرہ کرتا ہے اور یہ ان تمام اشیا پر صادق آئے گا جنہیں لوگ عرف عام میں مختلف اشیاء کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً پھلوں کے لیے جرين (یعنی وہ ڈھیر جہاں غلے کو خشک کیا جاتا ہے ) مویشیوں کے لیے باڑے ، نقدی رقوم کے لیے خاص قفل لگی ہوئی جگہیں ، اسی طرح دفن کرنے کی جگہیں بھی ان اشیا کے لیے حرز ہیں جو کچھ ان میں مدفون ہے ۔ اور قبریں ان کے لیے حرز ہیں جو ان میں داخل ہیں ۔ اور اسی طرح مساجد ان میں موجود صفوں ، چٹائیوں اور مختلف آلات مسجد کے لیے حرز ہیں ۔
[السيل الجرار: 360/4 – 361]
(صدیق حسن خانؒ ) حرز (یعنی چیز کا حفاظت کی جگہ میں ہونا ) ہاتھ کاٹنے کے لیے شرط ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جو غیر محرز (جسے حفاظت میں نہ لیا گیا ہو) ہے وہ لقطہ ہے جس سے احتراز واجب ہے ۔
[الروضة الندية: 598/2]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ربع دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چیز میں ہاتھ کاٹ دیا جائے ۔“
[بخاري: 6789 ، كتاب الحدود: باب قول الله تعالى والسارق والسارقة ، مسلم: 1684 ، ابو داود: 4383 ، ترمذي: 1445 ، نسائي: 78/8]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا تقطع يد السارق إلا فى ربع دينار فصاعدا
”چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر صرف ربع دینار یا اس سے زیادہ (مالیت کی چیز ) میں ۔“
[احمد: 80/6 ، مسلم: 1684 ، نسائي: 80/8 ، ابن ماجة: 2585]
➌ ایک اور روایت میں ہے کہ :
اقطعوا فى ربع دينار ولا تقطعوا فى ما هو أدنى من ذلك وكان ربع دينار يـومـئـذ ثلاثة دراهم والدينار اثني عشر درهما
”ربع دینار میں ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہ کاٹو اور اس وقت ربع دینار تین درہم کے برابر تھا اور ایک دینار بارہ (12) درہموں کے برابر تھا ۔“
[احمد: 80/6]
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقطع يد السارق فيما دون المجن
”ڈھال کی قیمت سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔“
عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ”ربع دینار ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 4583 ، كتاب قطع السارق: باب القدر الذى إذا سرقه السارق قطعت يده ، نسائي: 4939]
➎ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (کی چوری ) میں ہاتھ کاٹ دیا جس کی قیمت تین درہم تھی ۔
[بخاري: 6795 ، كتاب الحدود: باب قول الله تعالى والسارق والسارقة ، مسلم: 1686 ، ابو داود: 4385 ، نسائي: 76/8 ، مؤطا: 831/2 ، ترمذي: 1446]
(خلفائے اربعہ ، جمہور ) تین درہم یا ربع دینار کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا ۔
(احناف ) ہاتھ کاٹنے کا نصاب دس درہم ہے ۔ (اس مسئلے کے متعلق امام شوکانیؒ نے گیارہ (11) مذاہب اور حافظ ابن حجرؒ نے انیس (19) مذاہب نقل فرمائے ہیں تفصیل کا طالب انکی طرف رجوع کر سکتا ہے ) ۔
[نيل الأوطار: 576/4 – 578 ، فتح البارى: 61/14 ، الأم للشافعي: 130/6 ، الاختيار: 103/4 ، المغني: 416/12 ، بداية المجتهد:
447/2]

(راجح) بلاتر دو جمہور کا مؤقف گذشته صحیح احادیث کے موافق ہونے کی وجہ سے برحق ہے ۔
❀ سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمت ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ملائی جائے گی اس میں اختلاف ہے ۔
(مالکؒ ) درہموں کے ساتھ قیمت لگائی جائے گی ۔
(شافعیؒ ) قیمت لگانے میں اصل سونا ہے ۔
تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا [المائدة: 38]
”چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ۔“
(شوکانیؒ ) صرف دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اس کے بعد دوسری مرتبہ چوری کرنے کی صورت میں نہ ہاتھ کاٹا جائے گا اور نہ پاؤں ۔
[السيل الجرار: 364/4]
(شافعیؒ ، صدیق حسن خانؒ ) اہل علم کا اتفاق ہے کہ جب چور پہلی مرتبہ چوری کرے تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا ، پھر اگر دوسری مرتبہ چوری کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹا جائے گا ، پھر اگر تیسری مرتبہ چوری کرے تو اکثر اہم علم کے نزدیک اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا پھر اسی طرح اگر وہ دوبارہ چوری کرتا ہے تو اس کا دایاں پاؤں بھی کاٹ دیا جائے گا ۔ اس کے بعد پھر اگر وہ چوری کرے تو اسے سزا دی جائے گی اور قید کر دیا جائے گا ۔
(ابو حنیفہؒ ) اس کا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں نہیں کاٹا جائے گا لیکن اسے سزا دی جائے گی اور قید کر دیا جائے گا ۔
[الروضة الندية: 601/2]
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، چور کا ہاتھ اس کے جوڑ (کلائی ) سے کاٹتے تھے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے