شبہ یا رجوع سے حد زنا کا ساقط ہونا
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حد زنا شبہات پیدا ہو جانے سے ، اور اقرار سے رجوع کر لینے سے ساقط ہو جائے گی
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
ادرء وا الحدود بالشبهات ما استطعتم
”حسب استطاعت شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کر دو ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 2316 ، بيهقى: 238/8 ، تاريخ دمشق لابن عساكر: 2/171/19]
امام ابن حزمؒ نے کتاب الایصال میں اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاََ بیان کیا ہے ۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
[تلخيص الحبير: 56/4 ، نيل الأوطار: 553/4]
➋ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کر دینا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں شبہات کے باوجود حدود قائم کر دوں ۔“
[ابن أبى شيبة: 2/70/11]
(شوکانیؒ ) پہلی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ دلیل پکڑنا درست ہے کہ شبہات محتملہ (احتمال پیدا کر دینے والے شبہات ) کی وجہ سے حدود ہٹا دینا مشروع ہے ۔
[نيل الأوطار: 553/4]
➌ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كنت راجما أحدا بغير بينة لرجمتها
”اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت (عجلانی کی بیوی ) کو رجم کر دیتا ۔“
[مسلم: 1497 ، كتاب اللعان: باب]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ماعز رضی اللہ عنہ نے چوتھی مرتبہ زنا کا اقرار کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا ۔ اسے پتھریلے میدان میں لے جا کر رجم کیا گیا ۔ جب اس نے پتھر لگنے کی تکلیف محسوس کی تو جلدی سے بھاگ نکلا ، وہ ایک شخص کے پاس سے گزرا جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی اس نے اسے ہڈی کے ساتھ مارا اور پھر دوسرے لوگوں نے بھی اسے مارا حتٰی کہ وہ فوت ہو گیا چنانچہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوا کہ اس نے جب پتھر لگنے کی وجہ سے موت کو محسوس کیا تو وہ بھاگ گیا تھا ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هلا تركتموه
”تم لوگوں نے اسے کیوں نہ چھوڑا؟ .“
[حسن صحيح: صحيح ابن ماجة: 2068 ، كتاب الحدود: باب الرجم ، إرواء الغليل: 353/1 ، ترمذي: 1428 ، احمد: 286/2 ، ابن ماجة: 2554 ، حاكم: 363/4 ، ابن حبان: 2422]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه
”تم نے اسے کیوں نہیں چھوڑا ، شاید کہ وہ توبہ کر لیتا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول فرما لیتے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3716 ، كتاب الحدود: باب رجم ماعز بن مالك ، ابو داود: 4419 ، نسائي: 305/4 ، إرواء الغليل: 2322 ، شيخ البانيؒ نے لعله أن يتوب كے الفاظ كے علاوه باقي حديث كو صيح قرار ديا هے۔]
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) اقرار کرنے والے سے رجوع قبول کیا جائے گا اور پھر اس سے حد ساقط ہو جائے گی ۔
(ابن ابی لیلیؒ ، ابو ثورؒ) اقرار کے بعد رجوع قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ کا بھی یہی موقف ہے ۔
[نيل الأوطار: 500/4]
(ملاعلی قاریؒ) اسے چھوڑنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے دیا تھا کہ شاید وہ اپنے اس فعل سے رجوع کر لیتا اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرتا یعنی اس کی توبہ قبول کر لیتا ۔
[مرقاة: 152/7]
(بغویؒ) اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جو شخص زنا کا اقرار کرنے کے بعد حد قائم کرنے کے دوران ہی انکار کر دے اور کہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا یا کہے کہ میں نے زنا نہیں کیا تھا یا کہے میں رجوع کرتا ہوں تو باقی حد اس سے ساقط ہو جائے گی اور اسی طرح چور اور شراب پینے والا بھی ہے ۔
[شرح السنة: 467/5 ، تحفة الأحوذي: 796/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے