کنوارے زانی کی سزا: سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر زانی کنوارہ اور آزاد ہو تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اس کے بعد اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے گا
لغوی وضاحت: لفظِ حدود حد کی جمع ہے اس کا معنی ہے ”رکاوٹ“ ۔ باب حَدَّ يَحُدُّ (نصر) حد مقرر کرنا ۔ باب حَدَّدَ يُحَدِّدُ (تفعيل) حدود قائم کرنا ۔
[المنجد: ص / 143 ، القاموس المحيط: ص / 250 ، نيل الأوطار: 533/4]
شرعی تعریف: ایسی سزا جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو ۔ اس سے تعزیر ، غیر مقرر سزا اور قصاص وغیرہ خارج ہے ۔
[نيل الأوطار: 533/4 ، المبسوط: 36/9 ، فتح القدير: 112/4 ، بدائع الصنائع: 33/7 ، تبيين الحقائق: 163/3 ، مغني المحتاج: 155/4]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ [النور: 2]
”زنا کار مرد و عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ۔ ان پر شرعی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز نرمی نہیں اختیار کرنی چاہیے ۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرمائیں اور دوسرا جو اس کی بہ نسبت زیادہ سمجھدار تھا ، نے بھی کہا کہ ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیان کرو۔“ وہ بولا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری پر کام کرتا تھا ۔ اس کی اہلیہ سے زنا کا مرتکب ہو گیا ہے اور مجھے خبر دی گئی کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہے تو میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس کی جان چھڑائی ۔ اس کے بعد میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس عورت کو سزائے رجم ہے ۔ (یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله ، الوليدة والغنم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريـب عـام واغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها
”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے عین مطابق ہی فیصلہ کروں گا ۔ لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس لوٹائی جائیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی ہے ۔ اے انیسں! تم اس آدمی کی اہلیہ کے پاس جاؤ ۔ اگر وہ اس کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دو ۔“
[بخاري: 6842 ، 6843 ، كتاب الحدود: باب إذا رمى امرأته أو امرأة غيره بالزنا ، مسلم: 1697 ، 1698 ، ابو داود: 4445 ، ترمذي: 1433 ، نسائي: 240/8 ، ابن ماجة: 2549 ، حميدي: 811 ، احمد: 115/4]
➌ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے (احکام شریعت ) سیکھ لو ۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راستہ بنا دیا ہے:
البكر بالبـكـر جلد مائة ونفى سنة والثيب بالثيب جلد مائة والرجم
”کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اگر شادی شدہ عورت کے ساتھ شادی شدہ مرد زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور رجم ہے ۔“
[مسلم: 1690 ، كتاب الحدود: باب حد الزنا ، ابو داود: 4415 ، ترمذي: 1434 ، ابن ماجة: 2550 ، نسائي: 270/4 ، احمد: 313/5]
➍ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے لیے ان الفاظ میں فیصلہ فرمایا:
بنفى عام و بإقامة الحد عليه
”اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے اور اس پر حد بھی قائم کی جائے ۔“
[بخاري: 6833 ، كتاب الحدود: باب البكران يجلدان وينفيان]
➎ خلفائے راشدین ، عام صحابہ ، تابعین اور اکثر فقہا نے جلاوطنی کے حکم پر مسلسل عمل کیا ہے ۔
[شرح السنة للبغوى: 278/10]
➏ کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے پر اجماع ہے ۔
[الإجماع لابن المنذر: ص / 142 ، شرح فتح القدير: 26/5]
(ابو حنیفہؒ) کنوارے زانی کو جلا وطن کرنا واجب نہیں ہے ۔
[المبسوط: 44/9 ، بداية المجتهد: 436/2 ، الام للشافعي: 133/6 ، المغني: 322/12]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ گذشتہ تمام احادیث و آثار اس (امام ابو حنیفہؒ ) کا رد کرتے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 535/4]
عورت کو جلا وطن کرنے کا حکم
عورت کو جلا وطن کرنے کے متعلق اختلاف ہے:
(شافعیؒ) احادیث میں جلا وطنی کا حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے ۔
(مالکؒ ، اوزاعیؒ) عورت کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا ۔
(ابو حنیفہؒ) اسی کے قائل ہیں ۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
إذا زنت أمة أحدكم فليحلدها
”جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اسے کوڑے لگائے ۔“
[بخاري: 2153 ، كتاب البيوع: باب بيع العبد الزاني]
(شوکانیؒ) درج بالا حدیث کی وجہ سے صرف لونڈی پر جلا وطنی واجب نہیں ہے اور یہ عموم جلا وطنی کے حکم سے خاص ہو گا ۔ اس کے علاوہ جلا وطنی کے حکم میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں فرمائی ۔
[نيل الأوطار: 535/4 ، سبل السلام: 1672/4]
(راجح) امام شوکانیؒ کا مؤقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے