یہ مضمون ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلے پر ہے:
کیا امام حسن بصریؒ (پیدائش 21ھ – وفات 110ھ) نے حضرت علی بن ابی طالبؓ (وفات 41ھ) سے براہِ راست سماع کیا؟
اور کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت علیؓ نے حسن بصریؒ کو کوئی "اُونی چیتھڑا (خرقہ)” پہنایا جسے بعض صوفیہ تصوف کی بنیاد بتاتے ہیں؟
اس پر جمہور محدثین کی تصریحات، بیس سے زائد ائمہ کے اقوال، اور حسن بصریؒ کی اپنی تصریحات موجود ہیں۔ اس مضمون میں انہی دلائل و اقوال کو ترتیب وار پیش کیا جا رہا ہے۔
① حسن بصریؒ کی اپنی تصریح
عربی:
قال قتادة: حدّثنا الحسن أنه ما لقي أحداً من البدريين شافهه بالحديث.
اردو:
قتادہ کہتے ہیں: حسن بصریؒ نے فرمایا: “میں نے کسی ایک بھی بدری صحابی سے حدیث سنی نہیں (یعنی کسی بدری صحابی سے میرا سماع ثابت نہیں)۔”
حوالہ: المعرفة والتاريخ
ائمہ محدثین کی تصریحات
② ابن حزمؒ
عربی:
وأما الرواية عن عليّ فمنقطعة؛ لأن الحسن لم يسمع من علي شيئاً.
اردو:
علیؓ سے روایت منقطع ہے کیونکہ حسن بصریؒ نے ان سے کچھ بھی نہیں سنا۔
حوالہ: المحلى بالآثار
③ امام علی بن المدینیؒ
عربی:
الحسن لم ير علياً إلا أن يكون رآه بالمدينة وهو غلام.
اردو:
حسن بصریؒ نے علیؓ کو نہیں دیکھا، سوائے اس کے کہ بچپن میں مدینہ میں دیکھا ہو۔
حوالہ: كتاب المراسيل لابن أبي حاتم
④ ابو زرعہ الرازیؒ
عربی:
سُئِلَ أبو زرعة: لقي الحسن أحداً من البدريين؟ قال: رآهم رؤية، رأى عثمان بن عفان وعلياً. قيل: سمع منهم حديثاً؟ قال: لا.
اردو:
ابو زرعہ سے پوچھا گیا: کیا حسن بصریؒ نے بدری صحابہ سے ملاقات کی؟ فرمایا: انہیں دیکھا (عثمانؓ اور علیؓ) لیکن ان سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
حوالہ: كتاب المراسيل لابن أبي حاتم
⑤ امام ترمذیؒ
عربی:
ولا نعرف للحسن سماعاً من علي بن أبي طالب…
اردو:
ہم حسن بصریؒ کا علی بن ابی طالبؓ سے سماع نہیں جانتے۔
حوالہ: سنن الترمذي، حديث 1423
⑥ حافظ المزیؒ
عربی:
… رأى علي بن أبي طالب وطلحة وعائشة، ولم يصح له سماع من أحد منهم.
اردو:
حسن بصریؒ نے علیؓ، طلحہؓ اور عائشہؓ کو دیکھا، لیکن ان میں سے کسی سے سماع ثابت نہیں۔
حوالہ: تهذيب الكمال
⑦ حافظ ذہبیؒ
عربی:
… روى بالإرسال عن طائفة: كعلي وأم سلمة، ولم يسمع منه ما.
اردو:
حسن بصریؒ نے ایک جماعت (مثلاً علیؓ اور اُم سلمہؓ) سے مرسل روایت کی، لیکن براہِ راست کچھ نہیں سنا۔
حوالہ: سير أعلام النبلاء
⑧ امام یحییٰ بن معینؒ
عربی:
لم يسمع الحسن من علي بن أبي طالب شيئاً.
اردو:
حسن بصریؒ نے علی بن ابی طالبؓ سے کچھ بھی نہیں سنا۔
حوالہ: تاريخ ابن معين (رواية الدوري)
⑨ ابن عبدالہادی المقدسیؒ
عربی:
الحسن لم يسمع من علي.
اردو:
حسن بصریؒ نے علیؓ سے کچھ نہیں سنا۔
حوالہ: نقيح التحقيق في أحاديث التعليق
⑩ ابن حبانؒ
عربی:
ولد الحسن لسنتين بقيتا من خلافة عمر… وخرج من المدينة ليالي صفين ولم يلق علياً.
اردو:
حسن بصریؒ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو برس میں پیدا ہوئے… صفین کے بعد مدینہ سے نکل گئے اور علیؓ سے ملاقات نہیں ہوئی۔
حوالہ: الثقات لابن حبان
⑪ امام نوویؒ
عربی:
وقيل: إنه لقي علياً، ولم يصح.
اردو:
کہا جاتا ہے کہ علیؓ سے ملاقات کی، لیکن یہ بات صحیح نہیں۔
حوالہ: تهذيب الأسماء واللغات
⑫ ابن تیمیہؒ
عربی:
فإنهم متفقون على أن الحسن لم يجتمع بعلي.
اردو:
اہلِ فن کا اتفاق ہے کہ حسن بصریؒ علیؓ کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوئے۔
حوالہ: منهاج السنة
⑬ حافظ ابن حجرؒ
عربی:
… ورأى علياً ولم يثبت سماعه منه.
اردو:
علیؓ کو دیکھا مگر ان سے سماع ثابت نہیں۔
حوالہ: إتحاف المهرة / طبقات المدلسين
⑭ ملا علی قاریؒ
عربی:
حديث: لبس الخرقة الصوفية، وكون الحسن البصري لبسها من علي، قال ابن دحية وابن الصلاح: إنه باطل، وكذا قال العسقلاني.
اردو:
یہ روایت کہ علیؓ نے حسن بصریؒ کو خرقہ پہنایا، ابن دحیہ، ابن الصلاح اور ابن حجر عسقلانی نے فرمایا: یہ باطل ہے۔
حوالہ: الأسرار المرفوعة / المصنوع
⑮ ابن عراق الکنانیؒ
عربی:
… وهو من حديث الحسن عن علي ولم يلقه …
اردو:
یہ روایت حسن بصریؒ سے علیؓ کے بارے میں ہے، لیکن حسن بصریؒ نے علیؓ سے ملاقات ہی نہیں کی۔
حوالہ: تنزيه الشريعة المرفوعة
⑯ ضیاء الدین المقدسیؒ
عربی:
الحسن بن يسار البصري عن علي عليه السلام، وقيل إنه لم يسمع منه.
اردو:
حسن بصریؒ کی علیؓ سے مروی روایت ہے، لیکن کہا گیا کہ انہوں نے ان سے سماع نہیں کیا۔
حوالہ: الأحاديث المختارة
⑰ شمس الدین ابن مفلحؒ
عربی:
… ولا نعرف للحسن سماعاً من علي، وكذا قال أئمة الحديث: لم يسمع منه.
اردو:
ہم حسن بصریؒ کا علیؓ سے سماع نہیں جانتے، اور ائمہ حدیث نے بھی کہا ہے کہ حسن بصریؒ نے علیؓ سے نہیں سنا۔
حوالہ: أصول الفقه – ابن مفلح
⑱ حافظ ابن الجوزیؒ
عربی:
… الحسن لم يسمع من علي.
اردو:
حسن بصریؒ نے علیؓ سے سماع نہیں کیا۔
حوالہ: التحقيق في أحاديث الخلاف
⑲ امام یحییٰ بن سعید القطانؒ (نقل ابن معین)
عربی:
قيل له: سمع من عثمان؟ قال: يقول في بعض الحديث رأيت عثمان قام خطيباً … ولم يسمع من علي شيئاً.
اردو:
ان سے پوچھا گیا: کیا حسن بصریؒ نے عثمانؓ سے سنا؟ کہا: بعض احادیث میں کہتے ہیں “میں نے عثمان کو خطیب کے طور پر کھڑا دیکھا”… لیکن علیؓ سے کچھ بھی نہیں سنا۔
حوالہ: تاريخ ابن معين (رواية الدوري)
⑳ حافظ ابن حجر (المقاصد الحسنة میں شاگرد سخاوی کو)
عربی:
فإن أئمة الحديث لم يثبتوا للحسن من علي سماعاً.
اردو:
ائمہ حدیث نے حسن بصریؒ کا علیؓ سے سماع ثابت نہیں کیا۔
حوالہ: المقاصد الحسنة – للسخاوي
حسن بصریؒ کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع پر پیش کردہ دلائل کا جائزہ
① پہلی دلیل (سخاوی کی نقل)
عربی:
رواه الحافظُ أبو يعلى، قال: حدَّثنا أبو عامر حوثرة بن أشرس العدوي، أخبرني عُقبةُ بن أبي الصهباء الباهلي، سمعتُ الحسنَ يقول: سمعتُ عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله ﷺ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ».
اردو:
حافظ ابو یعلی سے روایت کی گئی کہ ابو عامر حوثرة بن أشرس نے عقبہ بن ابی الصهباء سے، اس نے حسن بصری سے، اور انہوں نے سماع کی تصریح کے ساتھ علیؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“میری امت کی مثال بارش کی سی ہے۔”
حوالہ: الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر – للسخاوي
جوابات
الجواب 01:
سخاوی نے اس روایت کو صیغۂ تمریض “رواه الحافظ أبو يعلى” کے ساتھ نقل کیا ہے، جو ناقل کے نزدیک روایت کے غیر ثابت ہونے کی علامت ہے۔
الجواب 02:
یہی حدیث “مثل أمتي مثل المطر” دوسری کتب (جامع ترمذی، مسند احمد، مسند البزار) میں مختلف صحیح اسانید سے موجود ہے، لہٰذا اس روایت کو حسن بصری کے علی سے سماع کی دلیل بنانا درست نہیں۔
الجواب 03:
مسند ابو یعلی میں یہ روایت دوسرے طریق سے موجود ہے:
«بِشر بن الوليد الكندي، حدّثنا أبو سهل يوسف بن عطية الصفار، قال: سمعتُ ثابتًا يقول: قال أنس: قال رسول الله ﷺ: مثل أمتي مثل المطر لا يُدرى أوله خير أو آخره.»
یعنی یہاں علیؓ یا حسن بصریؒ کا نام ہی نہیں۔
الجواب 04:
مسند ابو یعلی میں عقبہ بن ابی الصهباء صرف سالم بن عبداللہ یا نافع سے روایت کرتے ہیں؛ حسن بصری سے ان کی کوئی روایت نہیں۔ لہٰذا یہ سند دنیا کی کسی بھی کتاب میں موجود نہیں۔
الجواب 05:
حوثرة بن أشرس کو صرف حافظ ذہبی نے “محدّث صدوق” کہا ہے؛ لیکن اس کے ضبط کے بارے میں کچھ ثابت نہیں۔ اگر یہ روایت اس سے ثابت بھی ہو تو اس کے ضعف اور وہم کی وجہ سے سماع کی تصریح قبول نہیں۔
② دوسری دلیل (اللالكائي کی روایت)
عربی:
قال الحسن: «شهدتُ عليًّا بالمدينة، وسمع صوتًا، فقال: ما هذا؟ قالوا: قُتل عثمان. فقال: اللهم إني أُشهدك أني لم أرض ولم أمالئ، مرتين أو ثلاثًا.»
اردو:
حسن بصریؒ کہتے ہیں: “میں مدینہ میں علیؓ کے پاس تھا، انہوں نے ایک آواز سنی اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا عثمانؓ قتل ہو گئے۔ اس پر علیؓ نے تین بار کہا: اے اللہ! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں اور نہ اس میں شریک ہوا ہوں۔”
حوالہ: شرح أصول اعتقاد أهل السنة – لللالكائي
جواب
اس روایت کی سند میں:
-
عثمان بن محمد: مجہول۔
-
سعید بن أبی عروبہ: مدلس اور یہاں معنعن ہے۔
-
عامر الأحول: صدوق لیکن کثیر الخطا؛ امام احمد و نسائی نے اسے ضعیف کہا اور ابوحاتم نے اس کی روایت کو منکر کہا۔
لہٰذا یہ روایت شاذ اور ضعیف ہے اور سماع کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
③ خرقہ (اُونی چیتھڑا) والی روایت
عربی:
حديث: لبس الخرقة الصوفية، وكون الحسن البصري لبسها من علي، قال ابن دحية وابن الصلاح: إنه باطل، وكذا قال شيخنا (ابن حجر): إنه ليس في شيء من طرقها ما يثبت، ولم يرد في خبر صحيح ولا حسن ولا ضعيف أن النبي ﷺ ألبس الخرقة … ثم قال: ومن الكذب المفترى قول من قال: إن علياً ألبس الخرقة الحسن البصري.
اردو:
خرقہ پہنائے جانے والی روایت کے بارے میں ابن دحیہ اور ابن الصلاح نے فرمایا: یہ باطل ہے۔ ہمارے شیخ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا:
کسی بھی صحیح، حسن یا ضعیف سند سے یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی صحابی کو خرقہ پہنایا ہو، اور یہ کہنا کہ علیؓ نے حسن بصریؒ کو خرقہ پہنایا، محض جھوٹ اور افترا ہے۔
حوالہ: المقاصد الحسنة – للسخاوي
⚖️ نتیجہ
❀ حسن بصریؒ کا حضرت علیؓ سے سماع ثابت نہیں؛ اس پر بیس سے زائد محدثین کی واضح جروحات موجود ہیں۔
❀ خود حسن بصریؒ نے بھی کہا کہ بدری صحابہ سے کوئی حدیث براہِ راست نہیں سنی۔
❀ "خرقہ” پہنائے جانے والی روایت باطل ہے؛ ائمہ حدیث کے نزدیک اس کی کوئی اصل نہیں۔
❀ تصوف کو اس من گھڑت خرقہ روایت پر بنیاد دینا علمی و شرعی اعتبار سے باطل ہے۔
اہم حوالاجات کے سکین